ماضی کے جھروکوں سے نغموں اور گیتوں میں ہمارا ،تمہارا کراچی

September 12, 2019

سجاد احمد

ماضی میں چند ایسے فلمی اور غیر فلمی نغمات بھی تھے جو پاکستان بننے کے بعد تخلیق کیے گئے ہیں۔ ان نغمات کے علاوہ بعض ایسے گیت بھی تھے جو بظاہر تو کسی خاص شہر کے بارے میں نہیں ہیں لیکن ان گیتوں کا مجموعی تاثر بڑی حد تک کراچی کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔

کچھ لوگ شہر کراچی کو شہر ’’ستم گر‘‘ قرار دیتے ہیں تو کچھ ’’شہر امید‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حقیقت چاہے کچھ بھی ہو لیکن سچّی بات تو یہ ہے کہ کراچی، پاکستان کا دل ہے۔ یہ دکھّی ہوتا ہے تو پورا پاکستان دکھّی ہو جاتا ہے اور جب پر امن ہوتا ہے تو پورا پاکستان سکون کا سانس لیتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے کراچی کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں۔ ہر محب وطن شہری کے ذہن میں بس یہی سوال گردش کر رہا ہے کہ یہ آنسو کب تھمیں گے؟

کراچی میں اندرون ملک سے لوگوں کی آمد ہر وقت جاری و ساری رہتی ہے۔ یہاں تلاش روز گار کےلئے گائوں کے سیدھے سادے نوجوان بھی آتے ہیں، گھر سے بھاگے ہوئے معصوم بچّے بھی اور سیر و تفریح یا اپنے رشتے داروں سے ملاقات کی غرض سے شہر، شہر، قریہ، قریہ، گائوں، گائوں سے لوگ آتے، جاتے ہی رہتے ہیں۔ کراچی اپنے کشادہ دامن میں سب کو سمیٹے ہوئے ہے لیکن سچ پوچھیے تو یہاں کوئی کسی کا پرسان حال نہیں، ہر کوئی اپنی، اپنی الجھنوں میں گرفتار ہے۔ لٹنے والے لٹتے رہتے ہیں، مرنے والے مرتے رہتے ہیں اور موج اڑانے والے موج اڑاتے رہتے ہیں۔ اس موقع پر قطعہ پیش خدمت ہے جو ان ہی حالات کی بڑی خوبصورت عکاسی کر رہا ہے۔

شہرِ نا پرساں

کچھ لندن، امریکہ سے بڑھ کر عالم ہے یہاں نفسانفسی کا

ذرا ہوش میں رہنا تو اپنے غافل یہ شہر کراچی ہے

مت ڈھونڈ تو رشتہ داروں کو اس شہر کے رہنے والوں میں

یہاں کوئی کسی کا چاچا ہے نہ کوئی کسی کی چاچی ہے

کراچی کے بارے میں تخلیق ہونے والے اکثر گیتوں میں بھی حالات کی بڑی عمدہ عکاسی کی گئی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ تمام گیت تقریباً نایاب ہو چکے ہیں۔ تقریباً تیس، چالیس سال قبل تخلیق کیے گئے تھے اکثر نغمات کو سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کراچی کے آج کل کے حالات کی غمازی کر رہے ہیں۔

کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

کراچی کے بارے میں سب سے پہلا گیت 1955ء یا 1956ء کے لگ بھگ تخلیق کیا گیا تھا۔ یہ گیت ریڈیو پاکستان، کراچی کی پیشکش تھا اور خاص طور پر بچّوں کےلئے ریکارڈ کیا گیا تھا لیکن توقع کے برخلاف یہ نغمہ بڑوں میں بھی مقبول ہوا۔ اسی گیت سے احمد رشدی پہلی باربطور گلوکار عوام میں مقبول ہوئے۔ گو کہ اس نغمے کے بولوں میں لفظ ’’کراچی‘‘ شامل نہیں ہے لیکن جب بھی کراچی کے نغمات کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے یہی گیت ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔ اس گیت میں کراچی کے بندر روڈ سے لے کر کیماڑی تک کے مختلف مقامات کی بڑی عمدہ منظرکشی کی گئی ہے:

بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی

بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر

یہ آیا ریڈیو پاکستان، ہے گویا خبروں کی دکان

تو اس کے گنبد کو پہچان، کہیں مسجد کا ہو نہ گمان

سنائے گیت غزل کی تان، یہاں پر روز طمنچہ جان

بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر

1956ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’کنواری بیوہ‘‘ وہ پہلی فلم تھی جس کے ایک گیت میں کراچی شہر کا نام موجود ہے۔ گو کہ کراچی شہر کا نام گیت کے بولوں کے بجائے گیت کے ایک انترے میں شامل ہے۔ یہ نغمہ اپنے وقت کا ایک ہٹ نغمہ تھا۔ وقت کے ساتھ، ساتھ یہ گیت اپنی مقبولیت قائم نہ رکھ سکا اور سامعین کے اذہان سے مٹ گیا ،حالانکہ 80ء کی دہائی میں گرامافون کمپنی نے فلم ’’کنواری بیوہ‘‘ کے تمام گیتوں کو شائقین کی پر زور فرمائش پر آڈیو کیسٹ پر دوبارہ ریلیز کیے گئےتھے۔ بہرحال یہ ماضی کا ایک مقبول ترین گیت تھا۔

ہے آرزو کہ گزرے سنڈے تیری گلی میں منڈے تیری گلی میں

بیچا کریں گے آ کر انڈے تیری گلی میں منڈے تیری گلی میں

ہے دشمن محبت یعنی کہ میری چاچی

جانے ہے جس کو دنیا لاہور تا کراچی

1960ءاحمد رشدی کا گایا ہوا گیت ’’بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ کچھ شاعری اور کچھ موسیقی کی تبدیلیوں کے ساتھ ایک فلم میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اس گیت کے بول میں کراچی شہر کا نام موجود تھا۔ گویا یہ وہ پہلا فلمی نغمہ ہے جس کے بولوں میں شہر کراچی کا نام شامل ہے۔

پاکستان میں کراچی جیسے پان میں الائچی

گانا سن لو، گاڑی بان کا

یہ آیا ریڈیو پاکستان، ہے گویا خبروں کی دکان

تو اس کے گنبد کو پہچان، کہیں مسجد کا ہو نہ گمان

1963ء میں ایک فلم بنی تھی جس کا نام تھا ’’ماں کے آنسو۔‘‘ اس فلم میں شہر کراچی کے بارے میں بھی ایک بے حد ہی خوبصورت اور دل موہ لینے والا گیت موجود ہے۔

جھمکا گر گئیو رے مورا جھمکا گر گئیو رے

کراچی کے بازار میں جھمکا گر گئیو رے

1965ء میں کراچی میں ایک فلم ’’بہانہ‘‘ ریلیز ہوئی تھی، اس فلم کے دو نغمے مکمل طور پر کراچی کے بارے میں تھے بلکہ ان دونوں نغموں کے بولوں میں کراچی شہر کا نام بھی موجود تھا۔ یہ نغمہ انتہائی مقبول اسٹریٹ سانگ تھا اور گلیوں میں، بازاروں میں اور ہوٹلوں میں بجتا ہوا سنائی دیتا تھا:

شہر کا نام ہے کراچی کراچی کراچی

ہو کھو نہ جانا یہاں

شہر کا نام ہے کراچی کراچی کراچی

زیر نذر نغمہ تقریباً 48 سال پرانا ہے۔ اس دوران بہت کچھ بدل گیا۔ دنیا کیا سے کیا ہو چکی ہے۔ اگر 48 سال پرانے اس گیت پر غور کیا جائے تو ہمیں یوں محسوس ہو گا جیسے کراچی کے حالات اب بھی تقریباً ویسے ہی ہیں جیسے اب سے 48 سال قبل تھے۔

ایسے کراچی سے تو ہم باز آئے

کام نہ آئے جہاں اپنے پرائے

اونچی اونچی بلڈنگیں باہر سے عالی شان ہیں

اور اگر اندر سے دیکھو سب کے سب بے جان ہیں

اس کے شاعر مسرور بارہ بنکوی تھے اور اسے منیر حسین، احمد رشدی اور مسعود رانا نے گایا تھا۔

1967ء میں ایک فلم ریلیز ہوئی تھی جس کا نام ’’استادوں کے استاد‘‘ تھا۔ اس فلم کے گیت بہت مقبول ہوئے تھے اور اکثر ریڈیو سے نشر ہوتے رہتے تھے لیکن اس فلم کا ایک گیت جو ریڈیو سے بہت کم نشر ہوا کراچی شہر کے بارے میں ہے۔ اس گیت میں شہر کراچی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔

یہ شہر کراچی ہے پیارے

یہ شہر کراچی ہے پیارے

ہیں بڑے بڑے بدمعاش یہاں

استادوں کے استاد یہاں

کوئی تڑپ تڑپ کر مر جائے

کوئی سنتا نہیں فریاد یہاں

یہاں اپنی ترنگ میں ہیں سارے

یہ شہر کراچی ہے پیارے

1969ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’گیت کہیں سنگیت‘‘ کا گیت جس کے شاعر تنویر نقوی اور گلوکار مسعود رانا تھے آج کے حسب حال لگتا ہے۔

یہ شہر نہیں دل والوں کا

ہم ایسے خستہ حالوں کا

ہر کوئی حوس کا بندہ ہے

ہر دھندہ کالا دھندہ ہے

ہر سر پر لٹکتا خنجر ہے

اینٹوں میں لہو کا گارا ہے

تہذیب اگر کہتے ہو اسے

تو اپنا کہاں گزارا ہے

یہ شہر نہیں دل والوں کا

اب سے برسوں پہلے گائوں کی مائیں اپنے بچّوں کو نصیحت کرتی تھیں کہ وہ کراچی نہ جائیں۔ تقریباً چالیس سال پرانا یہ نغمہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے۔

یہ شہر تو ہے دھن والوں کا، یہاں اپنا گزارہ مشکل ہے

مرنے کے یہاں لاکھوں رستے جینے کا سہارا مشکل ہے

قدم قدم پر آ کے یہاں تکلیفیں روز اٹھاتے ہیں

اس سے تو اپنا گائوں بھلا جسے چھوڑ کے ہم پچھتاتے ہیں

سکھ سے رہنا اک پل بھی یہاں اب تو ہمارا مشکل ہے

مرنے کے یہاں لاکھوں رستے جینے کا سہارا مشکل ہے