سلطان صلاح الدین ایوبی اور پنجاب پولیس

September 15, 2019

اسلامی تاریخ کے ایک عظیم فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی کی مناسبت سے ہی شاید اس کے والدین نے اس کا نام صلاح الدین ایوبی رکھا ہو گا تاکہ وہ بھی اس نام کا نصیب پا سکے لیکن وہ ایک ایسے جرم کی پاداش میں پنجاب پولیس کی حراست میں مارا گیا، جس کی سزا موت نہیں ہے۔ گوجرانوالہ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والا صلاح الدین ایوبی اگر رحیم یار خان پولیس کی حراست میں نہ مرتا اور اپنے جرم کی سزا کاٹ کر اور جرائم سے تائب ہو کر دوسرا ایساکام کر سکتا تھا، جس کے ذریعہ اپنے نام کی مناسبت سے وہ بڑے نصیبوں والا بن جاتا لیکن 9صدیوں کے بعد تاریخ نے یہ راز افشا کیا ہے کہ 12 ویں صدی کا عظیم فاتح سلطان الناصر صلاح الدین یوسف ابن ایوب اس لیے خوش قسمت رہا کہ وہ پنجاب پولیس کے ہتھے نہیں چڑھا اور مصر، شام، میسوپوٹیمیا، حجاز، یمن اور شمالی افریقا تک اپنی سلطنت قائم کر لی حالانکہ اس کے لیے اس نے کیا کچھ نہیں کیا ہو گا۔ پاکستان کی پولیس خصوصاً پنجاب پولیس کی سنگدلانہ اور بے رحمانہ کارروائیوں سے تاریخ اپنا ایک عہد منسوب کردے گی۔ پنجاب پولیس کی زیر حراست ہلاکتوں اور تشدد کی خبریں آئے روز سامنے آ رہی ہیں۔ ایک موقر انگریزی روزنامے نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ پنجاب آج کل سنگدل پولیس کا مقبوضہ علاقہ بنا ہوا ہے۔ اگر ذرائع ابلاغ میں اس طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک عہد کی تاریخ مرتب ہو رہی ہے۔ اب بہت ہو گی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صورت حال سے ملک کو نجات دلانے کے لیے قومی سطح پر اور اتفاق رائے سے کوئی سنجیدہ کوشش ہونی چاہئے۔ صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں پولیس کا نظام ایسا ہے، جو کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ نظام چلانے والا ریاستی مائنڈ سیٹ پنجاب میں اپنی بے رحمی اور سنگدلی کے اظہار میں بوجوہ زیادہ بے باک ہے۔ میڈیا میں آنے والے بعض واقعات کے بعد ہم کچھ دنوں تک پولیس کے نظام پر بحث کرتے ہیں اور پھر اس وقت تک خاموش رہتے ہیں، جب تک مزید واقعات میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر نہیں آتے اور ہمارے اجتماعی ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتے۔ حالانکہ پولیس کے مظالم معمول ہیں، جن سے اعلیٰ پولیس افسران، حکمران اور سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی واقف ہیں۔ گھر سے دفتر تک جاتے ہوئے ہم شاہراہوں پر دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح سیکورٹی اور چیکنگ کے نام پر لوگوں کو روکا جاتا ہے۔ سرعام جوڑ توڑ کیا جاتاہے۔ معاملات طے نہ ہونے پر تھانے لے جایا جاتا ہے اور پھر مقدمات درج کرکے پریس ریلیز جاری کر دی جاتی ہے کہ پولیس نے آج ’’شاندار‘‘ کارکردگی کا مظاہرہ کیاہے۔ تھانوں میں بند اور مقدمات میں پھنسنے والے زیادہ تر غریب، لاوارث اور بے گناہ لوگ ہوتے ہیں۔ پولیس وہ ادارہ بن گیاہے، جس نے عام لوگوں کے لیے ریاست کو خوف اور دہشت کی علامت بنادیاہے۔ دیگر سیکورٹی ادارے اس تاثر کو اور زیادہ مضبوط کر رہے ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس ریاستی مائنڈ سیٹ کو بنانے میں کس ادارے کا کتنا کردار ہے لیکن لوگ اس ملک میں اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔ کچھ عدم تحفظ کا احساس پولیس تھانوں کی وجہ سے ہے اور کچھ تھانوں کے باہر رونما ہونے والے واقعات سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس والے انتہائی مشکل حالات میں ڈیوٹیاں کرتے ہیں۔ وہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ ہم ہر سال یوم شہدائے پولیس مناتے ہیں اور اپنے شہداء کو خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں۔ ان قربانیوں کے باوجود پاکستان میں عدم تحفظ کا احساس سب سے زیادہ ہے۔ پولیس پر عوام کا اعتماد قائم نہیں ہو سکا۔ تھانہ تحفظ کی نہیں، خوف کی علامت ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں گشت کرتی پولیس موبائلز لوگوں کے لیے کسی مصیبت کا سندیسہ ہی ہوتی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس صورت حال سے نجات حاصل کی جائے اور پاکستان کو ایک سیکورٹی اسٹیٹ سے فلاحی ریاست کی جانب گامزن کیا جائے۔ سیکورٹی ایشوز کی وجہ سے نو آبادیاتی ورثے والی پولیس پہلے سے زیادہ ظالم اور سنگدل ہو رہی ہے۔ پولیس کی حراست میں جب کوئی شخص مرتا ہے تو پولیس اکثر یہ موقف اختیار کرتی ہے کہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے۔ اگر کوئی خاتون ملزم مرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ برین ہیمبرج ہوا ہے۔ حالانکہ مہذب دنیا میں خوف کی وجہ سے ہونے والی موت کو طبعی قرار نہیں دیا جاتا اور اسے قتل ہی تصور کیا جاتا ہے۔ چاہے موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہو یا برین ہیمبرج سے۔ پولیس اصلاحات کے لیے گزشتہ نصف صدی سے کئی کمیشن بنے اور انہوں نے اپنی رپورٹس بھی دیں۔ انگریزوں کے بنائے گئے پولیس ایکٹ 1861 ء میں کئی ترامیم بھی ہوئیں اور نیا پولیس آرڈر بھی نافذ کیا گیا لیکن ذرا سا بھی فرق نہیں پڑا۔ اس کا بنیادی سبب ہمارا مائنڈ سیٹ ہے۔ اس صورت حال سے نجات کے لیے پاکستان کو ایک فلاحی اور جمہوری ریاست بنانے کے لیے تحریکیں اور کوششیں جاری رہنی چاہئیں لیکن پولیس پر چیک اینڈ بیلنس کا ایک موثر نظام فوری طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کی گرفتاریوں، تذلیل اور تشدد کے بے پناہ اختیارات پر فوری نظرثانی ہونی چاہئے۔ سندھ میں نیا پولیس ایکٹ کسی حد تک بہتر قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں صوبے سے تحصیل کی سطح پر ’’ پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلینٹس ‘‘ قائم کرنے کی شق موجود ہے۔ یہ کمیشن پولیس کے خلاف شکایات کا ازالہ کریں گے۔ ان میں عوامی نمائندے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ شامل ہوں گے۔ اس ایکٹ کا پہلے والا مسودہ میرے خیال میں زیادہ بہتر تھا، جس میں پولیس بے لگام نہیں ہو سکتی تھی لیکن میڈیا اور عدلیہ کے دباؤ سے یہ مسودہ تبدیل کر دیا گیا۔ اگر کوئی ادارہ ظالم (Brutal) ثابت ہو جائے تو اس کو ’’سیاسی مداخلت کے خاتمے ‘‘ کے سیاسی نعرے کی آڑ میں بے پناہ اختیارات نہیں دیئے جا سکتے۔