الزام کس کے سرجائے گا…؟

September 16, 2019

تحریر:روبینہ خان۔ مانچسٹر
سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنی 25 ہزار پونڈ مالیت کی سٹیفرڈس hut یعنی جھونپڑی میں بیٹھ کر کتاب لکھی ہے۔For The
Record.ڈیوڈ کیمرون نے وضاحت کی ہے کہ اس کتاب کا زیادہ تر حصہ دوسرے گھر میں لکھا گیاجو کہ ویسٹ لندن میں ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کس گھر میں بیٹھ کر کام ہوا۔ قصہ یہ ہے کہانہوں نے ریکارڈ کی درستی کرنی چاہی ہے تاکہ ان کو ریفرنڈم کروانے کا الزام نہ دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ریفرنڈم کروانے کا ان پر دباؤ تھا ورنہ کہنے والے کہتے ہیں کہ نہ ریفرنڈم ہوتا نہ بریگزٹ کو ووٹ پڑتا۔ ڈیوڈ کیمرون کو اندازہ نہیں تھا کہ چند ووٹوں کی ہاں سے ہی لیکن بازی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ بالفرض محال انہوں نے یہ سوچا بھی ہوتا تو کیا کرتے !! یعنی 2016کے ریفرینڈم سے پہلے کوئی حکمت عملی بناتے اور عوام کو بریگزٹ کے فائدے اور نقصان سے تفصیلی طور پرآگہی دیتے۔ اہم بات جو لوگوں کے دل کو لگی تھی کہ برطانیہ اپنے اندر رہ کر مزید مضبوط ہوگا باہر سے لوگ کم آئیں گے اور اپنے لوگوں کوملازمتیں ملیں گی، اپنی معیشت مضبوط ہوگی۔ عوام الناس بریگزٹ کے نتائج کے اثرات سے آشنا نہ تھے۔ برطانیہ 1973 کو یورپی یونین کا ممبر بن گیا یونین میں شامل 28 ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت اور رہنا سہنا یعنی سب کچھ چل رہا تھا۔28 اقوام ایک دوسرے کے ملکوں میں سالہا سال سے رہ رہی تھیں اور ان کو ہر جگہ اس ملک کے شہریوں کےسے مساوی حقوق دستیاب تھے۔2016 کے ریفرنڈم کے بعد اکثر لوگوں کو کہتے سنا گیا کہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ بریگزٹ کے بعد مہنگائی ہو جائے گی، چیزیں مشکل سے دستیاب ہوں گی، اگر امپورٹ کرنا پڑی تو بہت ٹائم لگا کرے گا کیونکہ چیکنگ ہوگی ،ویزا اور ‏hard ہارڈذ کا سامنا ہوگا۔ آج کی طرح نہیں کہ کوئی چیز 28ممالک سے آرڈر کی تو ڈیلیوری بہت جلد ہو جاتی ہے۔ آئرش بیک سٹاپ کی وجہ سے لنک اور بھی کمزور ہونے کا خطرہ ہے۔ ڈیوڈ کیمرون کی کتاب جو جلدہی مارکیٹ میں آ جائے گی، کتاب کی اہم باتیں سامنے لانا مارکیٹنگ کا حصہ ہوتا ہے۔ سو کتاب میں موجودہ وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں پر لعنت ملامت کا فریضہ بخوبی انجام دیا گیا ہے لیکن سابق وزیراعظم کہتے ہیں کہ ان کی راتوں کی نیند پریشانی کی وجہ سے اُڑ چکی ہے۔ یوکے دلدل میں پھنس رہا ہے اس میں شک نہیں ہے کہ پہلے تھریسامے نے تین سال میں یورپی یونین سے اخراج کی جو ڈیل بنائی، اس سے پارلیمنٹ متفق نہ ہوئی اور ہزیمت کا سامنا اٹھا کر تھریسامے کو رخصت ہونا پڑا۔ آپ کو یاد ہوگا اس وقت اپوزیشن کی جانب سے جنرل الیکشن کا مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ تھریسامے ناکام ہے اور فوری الیکشن کا اعلان کیا جائے۔ بورس جانسن کے نام وزیراعظم کا منصب آیا تو جو جوش و خروش ان کی جانب سے دیکھنے کو ملا اس کے مطابق بریگزٹ ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور اکتیس اکتوبر کو برطانیہ یورپی یونین سے باہر نکل جائے گا۔ بہرحال ان کے بھی برسلز کے چکر بےکار گئے اور وہ بغیر ڈیل کے 31اکتوبر یورپی یونین سے نکلنے کی مالا جپنے لگے۔ پارلیمنٹ اس چیز کو پہلے بھی مسترد کر چکی تھی لہٰذا ان کے اس اقدام کی شدید مذمت کی گئی۔بورس جانسن نے جنرل الیکشن کی آفر دی جس کو ایک بار پھر اپوزیشن کی طرف سے مسترد کر دیااور کہا گیا کہ پہلے برطانیہ ڈیل کے ذریعےیورپی یونین سے باہر ہو، الیکشن بعد کا کھیل ہے۔ ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ جو ریفرنڈم کے نتائج ہیں وہی صورتحال پارلیمنٹ کی بھی ہے۔ یعنی منقسم ہے پارلیمنٹ عوام کا ہی عکس ہوتی ہے لیکن ظاہر ہے پارلیمنٹرین کو فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں کے رویے بھی کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ ٹوری ایم پیز نے استعفے بھی پیش کر دئیے جب کہ بغاوت کرنے والےوالے سیاستدانوں کو پارٹی سے الگ کر دیا گیا ہے۔ ملکہ برطانیہ کے حکم سے پارلیمنٹ کو معطل کر دیا گیا ہے یعنی اب آپ آرام کریں اور واپس آئے تو ہماری ہاں میں ہاں ملائیں لیکن ایسا کوئی منظر بنتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ پارلیمنٹرین کی جانب سے شدید ردعمل کا اندیشہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ کو دوسرے ریفرنڈم کی ضرورت ہے۔ جتنی سبکی، نقصان اور تقسیم بریگزٹ کے فیصلے سے ہوئی ہے دوسری بار ریفرنڈم ہوگیا تو کون سا طوفان آ جائے گا۔ بات مزید کھل کر سامنے آ جائے گی اس وقت بھی شدید قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ ادھر سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے یوکے پارلیمنٹ کی معطلی کو غیر قانونی قرار دیا ہے جب کہ یوکے حکومت لندن میں کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے شنید ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کا اجلاس غیر متوقع طور پر بھی بلا سکتی ہے۔ فی الحال ڈیوڈ کیمرون کی دلدل والی مثال حقیقی منظر کشی کر رہی ہے۔ امید پر دنیا قائم ہے۔برطانیہ کی سیاسی کشمکش جلد ختم ہوجائے گی۔ یہ وہ ملک ہے جو جدیدیت اور روایت کا حسین امتزاج ہے۔ کچھ دلچسپ حقائق سے دل بہلائیے اور سیاست کو چندلمحات کیلئے بھول جائیے۔