ملک درست سمت میں گامزن؟

September 16, 2019

’’حکومت کا پہلا سال بہت مشکل تھا لیکن اب لوگ فرق محسوس کریں گے، اب ملک درست سمت میں صحیح راستے پر گامزن ہے‘‘ وزیراعظم عمران خان کا یہ دعویٰ جو اُنہوں نے ایک غیر ملکی ٹی وی کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو میں کیا، اُن کی حکومت کے ایک سال کے دوران مہنگائی و بیروزگاری میں بے پناہ اضافے سمیت معیشت کے تقریباً ہر شعبے میں نمایاں ابتری کے پیش نظر بہت سے لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا لیکن عمران خان نے اپنے دعوے کے حق میں جو دلائل دیئے ہیں وہ بھی بہرصورت قابلِ غور ہیں۔ حکومتی کامیابی سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم نئے پاکستان میں موجود ہیں، موجودہ حکومت نے ایسے فیصلے کیے جو پچھلی حکومتوں نے نہیں کیے۔ تحریک انصاف کے قائد کا یہ کہنا حقائق کے عین مطابق ہے کہ معاشی اصلاحات کے لئے اُن کے اقتدار کے پہلے سال میں ایسے مشکل فیصلے کیے گئے جن کی ضرورت کا احساس رکھنے کے باوجود ماضی کی حکومتیں ہچکچاتی رہیں۔ اِن فیصلوں میں ٹیکس نیٹ بڑھانے، ریٹرن فائل کرنے والوں کی تعداد میں اضافے اور دستاویزی معیشت کو فروغ دینے کے اقدامات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ جہاں تک اِن اقدامات کے نتائج کا تعلق ہے تو اس حوالے سے عمران خان کا یہ موقف بالکل معقول دکھائی دیتا ہے کہ ’’روم ایک ہی دن میں تعمیر نہیں ہوا تھا، جب وسیع پیمانے پر تبدیلیاں ہوتی اور اصلاحات پر مبنی فیصلے کیے جاتے ہیں تو اس کے ثمرات میں وقت لگتا ہے‘‘۔ تاہم حکومت کی معاشی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ قومی معیشت کی گاڑی کو درست پٹری پر ڈالنے کے لئے جو مشکل فیصلے کیے گئے اُن کے امید افزا نتائج و اثرات کے رونما ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ وزیراعظم کو گزشتہ روز معاشی ٹیم کی طرف سے دی گئی بریفنگ میں ان مثبت نتائج کی جو فہرست پیش کی گئی اس میں برآمدات میں اضافہ، تجارتی خسارے میں کمی، ٹیکسوں کی وصولی میں بہتری، ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور نجی کاروباری سرگرمیوں میں تیزی کا رجحان شامل ہیں۔ ان مثبت نتائج کے باوجود اس حقیقت کا ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے کہ معاشی بہتری کا اصل پیمانہ بہرکیف عام آدمی کو زندگی کی بہتر سہولتوں کی فراہمی اور اس کی مشکلات کا ازالہ ہے۔ سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔ اِس ضمن میں وزیراعظم کی معاشی ٹیم کو چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے فروغ کے لئے دی گئی ہدایت یقیناً اطمینان بخش ہے۔ مختلف وزارتوں کو وزیراعظم کی یہ ہدایت بھی نہایت اہم ہے کہ اہداف کے حصول اور کامیابیوں کی جانچ کے لئے ٹائم لائن پر مبنی واضح طریقہ کار وضع کیا جائے۔ اس ہدایت پر عمل درآمد ہوا تو حالات میں بہتری کی رفتار میں خاطر خواہ اضافے کے قوی امکانات ہیں۔ انٹرویو میں وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ اقدامات اور ظلم و تشدد کے سبب پیدا ہونے والی صورتحال اور اس کے نتیجے میں پاک بھارت جنگ کے خدشات اور متوقع نتائج پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ پاک بھارت تصادم ہوا تو اس کا اختتام ایٹمی جنگ پر ہوگا جس کی تباہ کاریوں کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے لہٰذا اقوام متحدہ نیز امریکہ، روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں کو کشمیر کا مسئلہ عالمی ادارے کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کے لئے اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کرنا اور بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اسے کشمیریوں کو حق خود اختیاری دینے پر آمادہ کرنا ہوگا۔ ہوش مندی کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری وزیراعظم پاکستان کے اس انتباہ پر فوری توجہ دے اور جنوبی ایشیا کی جوہری طاقتوں میں تصادم کے خدشات دور کرنے کے لئے کشمیر کے تنازع کو منصفانہ طور حل کرانے کے لئے تمام ضروری اقدامات کا سلسلہ بلا تاخیر شروع کرے۔