اسلاموفوبک ٹوئیٹس اور پوسٹس پر حکمراں کنزرویٹو پارٹی کے کئی ارکان معطل

September 21, 2019

لندن (جنگ نیوز) حکمراں کنزرویٹیو پارٹی نے اسلاموفوبک ٹوئیٹس بشمول پوسٹس پر اپنے کئی پارٹی ممبرز کو معطل کر دیا ہے۔ ان ٹوئیٹس اور پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ اسلام نفرت کا مذہب ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس حوالے سے پارٹی میں 20 کیسز ہیں اور اب پارٹی کا کہنا ہے کہ جن ارکان نے نامناسب مواد کو شیئر کیا ہے اور ان کےخلاف یہ ثابت ہوا ہے تو ان کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔ پارٹی حکام نے معطل کئے جانے والے ارکان کی تعداد نہیں بتائی۔ ان کے حوالے سے انویسٹی گیشن کے شرائط طے کی جا رہی ہیں۔ بی بی سی نے کہا کہ انہیں کسی نا معلوم ٹوئیٹر یوزر نے کیسز کی تفصیلات کے بارے میں الرٹ کیا تھا اور کنزرویٹیو پارٹی کو ان کی تفصیلات فراہم کرنے سے قبل ان کی تصدیق کی گئی تھی۔ پارٹی ارکان میں اسلاموبک رویئے کے حوالے سے انویسٹی گیشن کے بار بار مطالبات کئے گئے ہیں۔ اسلاموفوبک واقعات میں اینٹی مسلم تصاویر کو لائک کرنے سے لے کر باقاعدگی کے ساتھ اسلاموفوبک پوسٹنگ کرنا شامل ہے۔ مارچ میں ایک ممبر نے ٹوئیٹ پر جواب دیتے ہوئے یہ ہرزہ سرائی کی کہ اسلام اور غلامی (سلیوری) جرائم میں پارٹنر ہیں۔ جب بی بی سی نے اس سے تکرار کی اور کہا گیا کہ وہ خیالات و تصورات کی غلط نمائندگی کر رہے ہیں، اس نے دعوی کیا کہ تقریبا 15000 پوسٹس میں سے صرف تین پوسٹس کو سیاق و سباق سے باہر لیا گیا ہے۔ ایک اور ممبر انڈی پینڈنٹ پارش کونسلر نے، جس کا کہنا ہے کہ اس نے 2012 کی میئر لندن کمپین میں بورس جانسن کے ساتھ کام کیا تھا، یہ پوسٹ کی کہ اسلام نفرت کا مذہب ہے اور مسلمان آزادی اظہار سے نفرت کرتے ہیں۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایتھسٹ ہے۔ مسلمانوں کے خلاف دیگر منافرت پر مبنی کمنٹس میں مسلمان غلیظ ہیں اور بعض کا کہنا تھا کہ وہ اس ملک میں مسلمانوں کو نہیں دیکھنا چاہتے، شامل ہیں۔ کنزرویٹیو پارٹی کا کہنا ہے کہ تمام واقعات میں پارٹی ممبرز ملوث نہیں ہیں۔ ایک بیان میں پارٹی نے کہا کہ جو بھی پارٹی ارکان اسلاموفوبک ٹویٹس میں ملوث پائے گئے، ان کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا اور ان کے خلاف انویسٹی گیشن زیر التوا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ کنزرویٹیو پارٹی کسی بھی طرح کے امتیاز اور تعصب کے ساتھ کبھی کھڑی نہیں ہوگی۔ اسی لے ہم ان اسلاموفوبک واقعات کی انویسٹی گیشن کی شرائط طے کر رہے ہیں۔ تاکہ اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کیلئے روبسٹ پراسس یقینی بنایا جائے اور جب کبھی کوئی ایسا واقعہ ہو تو فوری اقدام کیا جا سکے۔ 2018 کے بعد سے دی مسلم کونسل آف بریٹن ٹوری پارٹی سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کے خلاف انڈی پینڈنٹ انکوائری کا آغاز کرے۔ مسلم کونسل برطانیہ مسلم تنظیموں کی سب سے بڑی باڈی ہے۔ مسلم کونسل برطانیہ (ایم سی بی) نے اسلاموفوبک پوسٹس پر ٹوری ارکان کی معطلی سے متعلق بی بی سی کی سٹوری کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان تازہ ترین انکشافات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ تنظیم کے سیکرٹری جنرل ہارون خان نے کہا کہ یہ انکشافات کنزرویٹو پارٹی کے اندر اسلاموفوبیا کا مظہر ہیں اور اس مسئلے کے پھیلائو کی تصدیق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خاص طور پر اسلاموفوبیا کے مسئلے پر ایک آزاد اور خصوصی انکوائری طویل عرصے سے التوا کی شکار ہے لیکن اس پر کنزرویٹو پارٹی کا رسپانس انتہائی تکلیف دہ ہے جو انکار سے اس معاملے کی وسیع تر چھان بین میں ہچکچاہٹ پر مبنی وعدے پر مشتمل ہے اور ہمیں خدشہ ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے اور حل کرنے کیلئے کچھ نہیں ہوگا۔ حقیقت میں سابق ایم ای پی سجاد کریم نے تصدیق کی کہ ایک موجودہ منسٹر نے ان کے بارے میں ڈائریکٹ اسلاموفوبک کمنٹس کئے تھے۔ جو انتہائی سنگین اور اس مسئلے کے پھیلائو کا مظہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس منسٹر سے فوری انویسٹی گیشن ضروری اور تازہ ترین ٹیسٹ ہوگا اور یہ پارٹی کے عزم کا امتحان اور عکاس ہوگا۔ انہوں نے کہا اگر کوئی ایکشن نہ لیا گیا اور وہ بدستور منسٹر رہے تو اس سے ایک بار پھر یہ ناکامی ثابت ہوگی کہ پارٹی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ کنزرویٹیو پارٹی میں اسلاموفوبک عام مرض کی طرح سرایت کر رہا ہے۔ سال رواں کے اوائل میں ہوپ ناٹ ہیٹ پول میں سامنے آیا تھا کہ کنزرویٹیو پارٹی کے ارکان میں کچھ تناسب اسلاموفوبک خیالات رکھتا ہے اور ہمارے پاس سینئر کنزرویٹو ممبرز بشمول وزیراعظم، موجودہ وزراء، جیسے زیک گولڈسمتھ اور ناڈین ڈورس، جنہوں نے اس مسئلے کو سنگین بنانے میں حصہ لیا، پارٹی میں اس طرح کے واقعات باقاعدگی کے ساتھ اور تمام سطح پر سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے زیادہ دیر چھپایا جا سکتا ہے۔