لوگ کہتے ہیں تو...!

September 22, 2019

پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ وفاقی حکومت کے بارے میں جو تاثرات پیدا ہو رہے ہیں وہ کسی بھی طرح اچھے نہیں ہیں۔ انہیں فوری طور پر زائل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تاثر یہ پیدا ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے احتساب کا ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ اس تاثر کی کسی اور نے نہیں بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نشاندہی کی ہے۔ اگلے روز نئے عدالتی سال 2019-20کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب چیف جسٹس کا کہنا یہ تھا کہ ملک میں جاری احتساب کے عمل کے لیے سیاسی انجینئرنگ کا تاثر خطرناک ہے، جسے فوری طور پر ختم ہونا چاہئے۔

دوسرا تاثر یہ پیدا ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے اقدامات خصوصاً احتساب کے نام پر ہونے والے اقدامات سے معیشت اور معاشی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ کے بیان کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے۔

اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حفیظ شیخ کا کہنا تھاکہ احتساب کا عمل اس انداز میں نہ ہو کہ کاروبار اور کاروباری ماحول پر منفی اثرات پڑیں۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے اپنے منصب کا خیال رکھتے ہوئے الفاظ کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لیا ہے ورنہ معیشت کے حوالے سے زمینی حقائق بہت تشویشناک ہیں۔ معیشت انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ لوگ اپنا پیسہ دبا کر بیٹھ گئے ہیں اور مزید کاروباری معاملات کو آگے بڑھانا نہیں چاہتے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا یہ ہے کہ لوگ اس ملک میں نہ صرف کاروبار نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس ملک کو چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔ حکومت اسے سیاسی بیان قرار دے سکتی ہے لیکن زمینی حقائق کے تناظر میں اس بیان کو جھٹلا نہیں سکتی۔

بعض حلقے یہ باتیں بھی کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ عالمی مالیاتی اداروں کے کہنے پر کیا جا رہا ہے اور یہ ایک بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔ کچھ حلقے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ رئیل اسٹیٹ، شوگر، سیمنٹ اور دیگر معاشی اور صنعتی شعبوں میں اپنے قریبی (Crony) سرمایہ داروں کو نوازنے کے لیے ان شعبوں سے وابستہ بڑی کاروباری شخصیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ اپنے لوگوں کی اجارہ داری قائم ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اضافی ٹیکسوں کی وصولی اور وصولی میں سختی کے باوجود ریونیو کے مقررہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے۔ بعد میں کیا ہوتا ہے لیکن ابھی تک یہی صورتحال ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے ممبرز کی تقرری کا جو معاملہ سامنے آیا ہے، اس سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اداروں پر کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان ممبرز کی تقرری کے حوالے سے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے آرڈر کو عدالت میں غیر آئینی قرار دیا ہے۔ ان اطلاعات پر اپوزیشن نے سخت تنقید کی ہے کہ حکومت چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا کے خلاف ریفرنس دائر کر رہی ہے کیونکہ انہوں نے الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان کے نئے مقرر کردہ ممبرز سے حلف لینے سے انکار کر دیا ہے۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ شریف الدین پیرزادہ کی روح واپس آگئی ہے، جو اس حکومت کو ماورائے آئین کاموں کا مشورہ دے رہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنسز سے پہلے ہی اداروں پر کنٹرول کا تاثر پیدا کر دیا گیا تھا۔ ملک میں میڈیا ٹریبونلز بنانے کی اطلاعات پر میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی قوتیں سراپا احتجاج ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں پہلے سے موجود اس تاثر کو بھی تقویت ملی ہے کہ یہ حکومت اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کر رہی اور ہر وہ اقدام کرنا چاہتی ہے، جس سے اختلاف رائے کو کچلا جا سکے۔ اس وقت پاکستان کی میڈیا انڈسٹری شدید بحران کا شکار ہے۔ میڈیا ورکرز کو نہ صرف تنخواہوں کی بروقت ادائیگی نہیں ہو رہی بلکہ تنخواہوں میں کٹوتی کے ساتھ ساتھ بہت سے اداروں سے ملازمین کو نکال بھی دیا گیا ہے۔

میڈیا ہاؤسز کے مالکان اس صورتحال کا سبب حکومتی اقدامات کو قرار دے رہے ہیں۔ صحافی بھی بہت محتاط ہو گئے ہیں۔ ہمیں اس آفاقی حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ جس سماج میں اختلاف رائے کا ماحول نہ ہو، وہ سماج مردہ ہو جاتا اور انتہا پسندی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ پاکستان کے تین صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں۔ صرف سندھ میں نہیں ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کے رہنما 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو دیئے گئے اختیارات پر زبردست تنقید کرتے رہتے ہیں اور سندھ حکومت کے ساتھ وفاق کے رویے سے یہ تاثر بھی مضبوط ہو رہا ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی خود مختاری کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے سندھ میں آرٹیکل 149کے اطلاق سے متعلق بیان ذاتی حیثیت میں دیا ہو لیکن تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے بارے میں تاثر کو تقویت ملی ہے۔ خیبر پختونخوا میں قومی سلامتی کے معاملات کی وجہ سے صوبائی امور میں فوج کا کردار متعین کرنے سے متعلق مجوزہ آرڈیننس پر بھی بہت تنقید ہو رہی ہے۔ یہ بات نہیں بھولنا چاہئے کہ تحریک انصاف ملک میں کرپشن کے خاتمے، احتساب، میرٹ کا نظام قائم کرنے، اداروں کو مضبوط بنانے اور حقیقی جمہوری معاشرہ بنانے کے نعروں پر عوامی مینڈیٹ لے کر آئی ہے۔ اس نے اپنے اوپر بھاری ذمہ داری عائد کی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں جو اب تک تاثرات پیدا ہوئے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہو رہے ہیں۔ اگر انہیں زائل نہ کیا گیا تو نہ صرف تحریک انصاف بلکہ ملک میں سیاسی اور جمہوری عمل کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔