سرینگر کے مجاہد آزادی کا خط

February 15, 2013

شہید افضل گورو کو پھانسی دینے کے بعد ہندوستان کی سیکولر ا ور جمہوری حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ پانچ دنوں سے کرفیو لگا رکھا ہے۔ بھارت کا اجتماعی ضمیر تو گورو کو پھانسی چڑھا کر مطمئن ہوگیا ہے لیکن انسانی ضمیر کا اس پر کیا ردعمل ہوگا اس کا اندازہ آئندہ چند روز میں ہوگا۔ اس حوالے سے مجھے سرینگر کے ایک مجاہد آزادی کا خط ملا ہے جو قارئین کی نذر ہے۔ آج کل تنازع کشمیر کی تاریخ کے ضمن میں کچھ تاریخی حقائق کا اعادہ کیا جارہا ہے جس میں قبائلیوں کے حملے اور فتوحات، پاکستانی فوج کے کردار، پاکستانی فوج کے برطانوی سپہ سالار کی قائداعظم کی حکم عدولی،مہاراجہ کشمیر کا بھارت سے معاہدہ اور بھارتی فوج کی کشمیر میں آمد کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جارہا ہے جو قارئین اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کے لئے دو کتابوں کا مطالعہ نہایت مفید ہوگا جس میں اس حوالے سے تحقیقی مواد موجود ہے۔ اول شجاع نواز کی کتاب Crossed swordsاور دوم لیمب کی کتاب Kashmir,A disputed Legacyشجاع نواز نے جی ایچ کیو کے ریکارڈ سے استفادہ کیا ہے جہاد کشمیر کے اولین فیز(Phase)پر خوب روشنی ڈالی ہے اور پاکستانی فوج کے انگریز سپہ سالار کی حکم عدولی کا پس منظر شواہد کے ذریعے واضح کیا ہے۔ آپ کو علم ہے کہ اس نے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا۔ لیمب(Lamb)کی کتاب معتبر مواد اور شواہد کے ذریعے تجزیہ کرکے ثابت کرتی ہے کہ ہندوستان افواج کشمیر کے مہاراجہ سے سمجھوتہ اورInstrument of accessionپر دستخط کرنے سے پہلے ہی کشمیر میں وارد ہوچکی تھیں۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ ہندوستانی افواج مہاراجہ سے معاہدہ اور مطالبہ کے نتیجے میں کشمیر میں پہنچیں لیکن یہ کتاب اس دعویٰ کی نفی کرتی ہے اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پاکستان دشمن رویے پر روشنی ڈالتی ہے۔ کشمیر میں خون بہہ رہا ہے ،جہاد جاری ہے اور ہندوستان اپنی پوری فوجی قوت کے با وجود کشمیریوں کی شمع آزادی نہ بجھا سکا ہے اور نہ ہی مستقبل میں بجھا سکے گا۔ آزادی کشمیر کا مقدر ہے اور انشاء اللہ یہ آزادی کشمیری اپنے زور بازو اور جدوجہد سے حاصل کریں گے۔ خط حاضر خدمت ہے ۔
محترم ڈاکٹر صفدر محمود
السلام علیکم!
دعا ہے کہ آپ خیریت سے ہوں۔ آپ ان گنے چنے اہل قلم میں شامل ہیں جو بھارت کے عزائم کو خوب جانتے ہیں اور اس حوالے سے کسی فریب کا شکار نہیں ہوسکتے۔آپ سے ہر سچا اور سنجیدہ پاکستانی توقع رکھتا ہے کہ آپ بھارت کے حوالے سے پاکستانیوں کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔ اسی لئے میں حال ہی میں رونما ہونے والے ا ہم واقعے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
افضل گورو کو9فروری کو تختہ دار پر لٹکانے سے بھارت کی ہیت حاکمہ کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ اس مظلوم کے المناک عدالتی قتل سے ایک بار پھر وہ بھیانک حقیقت مبرہن ہوگئی ہے جسے چھپانے کے لاکھ جتن ہورہے ہیں۔بھارتی عدالت عظمیٰ کے گورو کی سزائے موت برقرار رکھنے کے فیصلے کے حق میں دئیے گئے باطل دلائل سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ وہاں پر سپریم کورٹ کے جج صاحبان تک بھی مسلمانوں کے خلاف اندھے تعصب میں کتنا گر سکتے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے یہ بات تسلیم کی تھی کہ ملزم کے خلاف کوئی راست شہادت نہیں ہے۔ ملزم کو مبینہ طور پر واقعاتی شہادت کی بنیاد پر سزا سنائی گئی تھی۔مقدمے کا مطالعہ کرنے والے تمام غیر جانبدار اور انصاف پسند قانونی ماہرین کے مطابق ملزم قطعی طور پر بے گناہ تھا۔ اس کے خلاف کوئی واقعاتی شہادت بھی نہیں تھی اور اسے زبردستی ملوث کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی سماج کے ا جتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے سخت ترین سزادینا ضروری ہے۔ اس اجتماعی ضمیر کو صرف وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں جنہیں برصغیر کی تاریخ کا کماحقہ مطالعہ ہے۔ تاریخ کی اہمیت سے کوئی عقلمند انکار نہیں کرسکتا۔ قوموں کے لئے مستقبل کی تعمیر کے لئے تاریخی عوامل کا بھرپور ادراک رکھنا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے بجا طور پر اپنی شہرہ آفاق شاہکار” اسرار و رموز“ میں تاریخ کو قوموں کا حافظہ اور یاداشت قرار دیا ہے۔ پاکستانی قوم کی یاداشت جب تک باقی ہے تب تک اس بھارت سے دوستی ہو ہی نہیں سکتی جس نے کشمیر کی آزادی سلب کر رکھی ہو۔
بھارت میں سرکاری سطح پر جو تصور قومیت اختیار کیا گیا ہے اس کا شجرہ نسب اٹھارہویں صدی میں بنگال پرانگریزوں کے قبضے کے بعد وہاں شروع ہونے والی ہندو تہذیب کے احیاء کی تحریک سے ملتا ہے۔ اس تحریک کی قیادت برہمنوں کے ہاتھوں میں تھی۔ برہمن طبقاتیت اور ذات پات کے معاملے میں راسخ العقیدہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ہم مذہب نیچی ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کو چھوت خیال کرتے ہیں اور ان سے انسانیت سوز ظالمانہ سلوک روا رکھنا اپنے دھرم کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں سے ان کی دشمنی اورنفرت اس سے کہیں زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہندومت کے احیاء کی تحریک کا غالب عنصر مسلمان دشمنی سے عبارت تھا، اپنے ہم وطن مسلمانوں کے مقابلے میں وہ غیر ملکی انگریزوں کو نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ اسی مسلم دشمن تحریک سے اکھنڈ بھارت کے سیاسی نظریے نے جنم لیا۔برطانوی ہند میں مسلمان کثیر تعداد میں رہتے تھے اور بعض خطوں میں ہمیں واضح اکثریت حاصل تھی۔ سیاسی طور پر انہیں نظر انداز کرنا ناممکن تھا اس لئے مسلمانوں کو فریب دینے کے لئے اخوت کے گیت گانے اور اتحاد وطن کے راگ الاپنے کا سلسلہ شروع کیا گیا مگر کسی بھی موڑ پر جائز مسلم مفادات کی قیمت پر تسلط پسندانہ ہندو مفادات کو فروغ دینے سے دریغ نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ ہر دانا اور غیور مسلمان زیادہ دیر کانگریس کے ساتھ نہیں چل سکا۔
زندگی میں ہی مہاتمائی کے سنگھاسن پر برا جمان ہونے والے اہنسا کے دیوتا گاندھی جی کے طرز عمل کو دیکھ کر مسلمانوں کو زیر کرنے کے جنون کا اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے۔ لارڈ دیول اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ 1946ء میں کلکتہ میں ہونے والے خونریز فسادات کے پس منظر میں جب وہ گاندھی جی کو مسلم لیگ کے ساتھ پرامن تصفیہ کرنے کی تلقین کررہا تھا تو گاندھی جی نے کہا(If India needs blood bath ,let she have it)اگر ہندوستان خون میں نہلاتا ہے تو کیا ہوا۔ لارڈدیول نے لکھا ہے کہ میں امن کے دیوتا کے منہ سے یہ الفاظ سن کر حیران رہ گیا۔
پاکستان بن گیا ،منصوبہ ہند فسادات میں لاکھوں مسلمان موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ بچ جانے والوں کو پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کرلیا گیا۔ جموں سے لے کر دہلی تک مشرقی پنجاب کا علاقہ مسلمانوں سے بالکل خالی کرایا گیا۔ اس ساری کارروائی کا اہم مقصد مسلم ریاست جموں و کشمیر پر بندوق کی نوک پر قبضہ کرنا تھا۔27اکتوبر کے دن سرینگر پر بھارتی فوج نے حملہ کیا۔ ان دنوں امن کے دیوتا روزانہ دہلی میں منعقدہ دعائیہ محافل(پراتھنا سبھاؤ ں) میں بھارتی فوج کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے رہے۔ ان کے مطابق بھارتی فوج عظیم نصب العین کے لئے کشمیر گئی تھی۔ مسلمانان کشمیر نے اس فوج کے ہاتھوں سرینگر میں جو پہلی مسلم کشی دیکھی وہ بھی بھارتی سپریم کورٹ کے بیان کردہ اجتماعی بھارتی ضمیر کی تسکین کے لئے عمل میں لائی گئی تھی۔ بھارت کے آلہ کار شیخ عبداللہ نے اپنے درجن بھر کارندوں کو حملہ آور بھارتی فوجوں کو راستے دکھانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ مسلم دشمنی میں پاگل ہوچکے بھارتی فوجیوں کو جب ان کارندوں کے مسلمان ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے سب سے پہلے انہیں ہی گولیوں سے بھون ڈالا۔ شیخ عبداللہ نے بھی اپنی سوانح حیات میں اس شرمناک واقعے کا ذکر کیا ہے تب سے لے کر اب تک اجتماعی بھارتی ضمیر کی تسکین کے لئے صرف کشمیر میں ہی ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔
شہید محمد افضل گورو کے تختہ دار پر چڑھ جانے سے ان مقتولین میں ایک اور فرد کا اضافہ ہوا ہے۔ افضل گورو سے ایک سنگین گناہ کا ارتکاب ہوا تھا۔ جب کشمیر میں مسلح مزاحمت جوبن پر تھی تو اس نے دشمن کے سامنے ہتھیار پھینک کر آزادی کے قافلہ سخت جان میں شامل اپنے ساتھیوں سے بے وفائی کی تھی۔ بھارتی قید میں دس سال گزارنے کے دوران اسے توبہ و تائب کا سنہری موقع میسر رہا اور بالآخر تختہ دار پر چڑھ کر اس نے دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکنے کے گناہ کا داغ اپنے نامہ اعمال سے دھو ڈالا۔ خدائے مہربان اسے شہداء کے ساتھ محشور کرے۔ (آمین) آپ کا نیاز مند …خواجہ شجاع عباس