ڈینگی۔ گائیڈ لائن موجود تھی تو پھر؟

September 29, 2019

دوستو! یہ بات ہے 2006ء کی، ہمیں ڈینگی فیور ہو گیا، ہم کوئٹہ میں آنکھوں کی بیماریوں پر ایک سیمینار منعقد کرانے گئے ہوئے تھے، دورانِ سیمینار ہماری طبیعت بہت بگڑ گئی۔ اس وقت کے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے ڈاکٹر نے بھی علاج کیا مگر صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ ہم نے وہاں سے لاہور کے معروف فزیشن اور ڈینگی کے ماہر ترین پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود مرحوم کو فون کیا اور صرف فون پر ہی اپنی علامات بتائیں۔ انہوں نے فوراً کہا کہ تمہیں ڈینگی ہو گیا ہے، ہم نے عرض کیا کہ یہ ڈینگی کس بلا کا نام ہے؟ انہوں نے کہا کہ تمہیں ابھی اس کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا۔ تم فوراً لاہور میرے گھر پہنچو، انہوں نے ہمارا معائنہ کیا اور خون کے ٹیسٹ کرانے کے لئے کہا اور خون کے ٹیسٹ کی رپورٹوں سے قبل ہی وہ ہمیں بتا چکے تھے کہ تمہیں ڈینگی ہو چکا ہے جو ایک خاص مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے اور یہ چند برس میں پاکستان میں آنے والا ہے، اس کی کوئی ویکسین اور دوائی نہیں آرام کرو اور بخار اترنے کی دوا لو، لیموں پانی اور سیب کا جوس زیادہ سے زیادہ پیو۔ ہمیں اس وقت حیرت ہوئی جب ہمارے خون کی رپورٹیں دو دن بعد آئیں تو پتا چلا کہ ہمیں ڈینگی فیور ہے۔ خیر دو ہفتے کے بعد ہماری طبیعت سنبھلی تو ہمیں جستجو ہوئی کہ اس ڈینگی فیور کے بارے میں مزید جانیں، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر فیصل مسعود مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، آمین! انہوں نے ہمیں اس بخار کے بارے میں کئی حیران کن باتیں بتائیں اور کہا کہ یہ جان لیوا ہے۔

2006ء کیا، 2011ء تک کسی پاکستانی کو پتا نہیں تھا کہ ڈینگی فیور کیا ہوتا ہے، پھر اچانک 2011ء میں ڈینگی ایک وبا کی صورت میں نمودار ہوا۔ اس سے قبل پروفیسر فیصل مسعود مرحوم اس بیماری سے بچنے کیلئے ایک گائیڈ لائن مرتب کر چکے تھے دوسری طرف پنجاب کے اس وقت کے وزیراعلیٰ اور وزیر صحت ڈینگی فیور کے بارے میں مختلف ممالک میں رابطے کر چکے تھے۔ ہمیں ویسے تو میاں شہباز شریف کی بعض باتوں سے سخت اختلاف ہے لیکن ڈینگی کے حوالے سے اور پی آئی سی میں غلط دوا کھانے سے مریضوں کی ہلاکتوں پر انہوں نے واقعی طوفان میل کی طرح کام کیا اور اس کا کریڈٹ بلاشبہ ڈاکٹر فیصل مسعود اور خواجہ سلمان رفیق کو بھی جاتا ہے۔ سری لنکا سے آنے والے ڈاکٹروں کی ٹیم کی جب ڈاکٹر فیصل مسعود مرحوم سے میٹنگ ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس اس شخص کے ہوتے ہوئے کسی اور کی ضرورت نہیں، ڈینگی کے خلاف جو گائیڈ لائن انہوں نے بتائی ہے، وہ سو فیصد موثر ہے اور اس پر فوراً عمل شروع کرنا چاہئے۔ شہباز شریف خواجہ سلمان رفیق نے ڈینگی کے خلاف جہادی بنیادوں پر کام کیا اور پھر 2017ء تک اس ملک میں ڈینگی کا تقریباً خاتمہ ہو گیا۔ مرحوم فیصل مسعود نے اپنے انتقال سے چند روز قبل کہا کہ اس سال ڈینگی پھر زوروں سے آئے گا مگر حکومت کچھ نہیں کر رہی۔ حکومتی دعوئوں کے باوجود ڈینگی پر قابو پانے کے لئے ابھی تک خاطر خواہ انتظامات نہیں ہوئے، نہ کوئی ہیلپ لائن، نہ ٹیمیں یا ڈینگی اسکواڈ نظر آ رہا ہے، وہ ڈینگی اسکواڈ جو پچھلی حکومت نے کروڑوں روپے خرچ کرکے اسپرے والی گاڑیاں، مشینیں اور بے شمار ورکرز بھرتی کئے اور باقاعدہ ڈینگی اسکواڈ کا دفتر قائم کیا تھا آج اس کا کچھ اتا پتا نہیں ہر روز اسکولوں اور کالجوں میں ڈینگی پیریڈ ہوتے تھے، پنکچر لگانے والی دکانوں پر پڑے پرانے ٹائروں کو چیک کیا جاتا تھا، گھر گھر جاکر ڈینگی اسپرے اور گملوں میں پانی صاف کیا جاتا تھا۔ آج کچھ بھی نہیں ہو رہا، صرف بیانات دیئے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت خود یہ کہہ چکے ہیں کہ ڈینگی کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد دس ہزار ہو چکی ہے اور جب تک یہ کالم شائع ہوگا، یقیناً اس تعداد میں دو چار ہزار مزید مریضوں کا اضافہ ہو چکا ہوگا۔ اس وقت صرف پنجاب میں چار ہزار سے زائد ڈینگی کے مریض ہیں جبکہ بیس کے قریب افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک میں ڈینگی فیور میں چودہ ہزار کے قریب افراد مبتلا ہو چکے ہیں اور روزانہ سو، دو سو افراد اس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

کس زمانے میں ڈینگی سے بچائو کے لئے ایک گائیڈ لائن مرتب کی گئی تھی مگر سوال یہ ہے کہ جب پوری گائیڈ لائن موجود تھی تو پھر حکومت نے غفلت کیوں برتی؟ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بعض ماہرین کے نزدیک آنے والے چند دنوں میں ڈینگی میں مزید شدت آ جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ ہیومیو پیتھک میں ایک /دو ادویات ایسی ہیں جو ڈینگی کے مرض کی شروع ہی میں روک تھام کر لیتی ہیں اور اگر ان کا استعمال کر لیا جائے تو ڈینگی نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے حکومت ڈاکٹروں اور ہیومیو پیتھک ڈاکٹروں سے مل کر ڈینگی کے خاتمے کے لئے کوئی موثر حل تلاش کرے۔ ڈینگی کے ٹیسٹ مفت کرنے سے یا وزیراعلیٰ کے دوروں سے ڈینگی ختم نہیں ہوگا اس کے لئے 2011-12والی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، لیکن جو کام عوام کی بہتری کے لئے چاہے کسی بھی حکومت نے کئے ہوں ان کو دوبارہ شروع کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کو اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کرنا چاہئے، گھر گھر جاکر ڈینگی کی آگاہی کے لئے کام کرنا ہوگا۔ ڈینگی سے بچنے کے لئے ویکسین بنائی جائے، ادویات بنائی جائیں، ریسرچ کی جائے اور ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ پنجاب حکومت نے بڑا دلچسپ بیان دیا ہے کہ سردی آئے گی تو ڈینگی ختم ہو جائے گا۔ چاہے تب تک وہ ہزاروں زندگیوں کے چراغ گل کر چکا ہو؟