’علی بابا‘ کے بانی چیئرمین ’جیک ما‘ ریٹائر ہوگئے

September 30, 2019

چین میں ای-کامرس کی بنیاد ڈالنے والی کمپنی ’علی بابا‘ کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین ’جیک ما‘ 55سال کی عمر میںریٹائر ہوگئے ہیں۔ 1999ء میں، چین کے جنوب مشرقی شہر ہینگزو میں ایک کمرے سے کاروبار شروع کرنے والے جیک ما نے 20سال بعد جب ’علی بابا‘ سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے تو ان کی کمپنی 460ارب ڈالر مالیت کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی ای-کامرس کمپنی بن چکی ہے اور اس کی فروخت کا حجم امریکا کی سب سے بڑی ای-کامرس کمپنی ’ایمازون‘ سے تین گُنا زیادہ ہے۔

ابتدائی زندگی

جیک ما نے 10ستمبر 1964ء کوکمیونسٹ چین کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ یہ وہ دور تھا، جب کمیونسٹ چین مغرب سے کٹا ہوا تھا۔ 1972ء میں امریکی صدر نکسن کے دورہ ہینگزو کے بعد یہ شہر سیاحوں کے ریڈار پر آیا اور آہستہ آہستہ سیاح اس خوبصورت شہر کو دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ جیک ما اس وقت ٹین ایجر تھے اور صبح سویرے اُٹھ کر شہر کے مرکزی ہوٹل پہنچ جاتے تھے، جہاںوہ سیاحوںسے انگریزی سیکھا کرتے تھے۔ والدین سے ’مایون‘ کا نام پانے والے اس بلند نظر شخص کو ’جیک‘ نام ایک سیاح نے ہی دیا تھا۔

ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جیک ما کو کالج میں داخلہ لینے کیلئے دو بار انٹری امتحان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، تیسری کوشش میں وہ کامیاب ہوئے۔ 1988ءمیں انھوں نے ہینگزو ٹیچرز انسٹیٹیوٹ سے گریجویشن کیا۔ گریجویشن کے بعد متعدد ملازمتوں کے لیے رَد کیے جانے کے بعد بالآخر مقامی یونیورسٹی میں انھیںانگلش پڑھانے کی نوکری مل گئی، جہاں وہ ماہانہ 12ڈالر کماتے تھے۔ 2016ء کے عالمی اقتصادی فورم میں انھوں نے پہلی بار انکشاف کیا کہ انھیں ہارورڈ یونیورسٹی نے 10بار مسترد کیا تھا۔

جیک ما نے 1995ء میںپہلی بار امریکا کا دورہ کیا اور جب وہاں انٹرنیٹ استعمال کرنے کا موقع ملا تو اس وقت انھیں کمپیوٹر یا کوڈنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ دراصل جیک ما نے ان ہی دنوں ترجمہ کرنے کے کام کا آغاز کیا تھا اور ایک چینی کمپنی نے انھیں اپنے امریکی کلائنٹ کے پاس پھنسی ہوئی رقم کی واپسی کے لیے امریکا بھیجا تھا۔ انٹرنیٹ پر انھوں نے جب ایک پراڈکٹ سرچ کی تو انھیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ سرچ کے نتائج میںایک بھی چینی برانڈ یا کمپنی شامل نہیں تھی۔ یہی وہ لمحہ تھا، جب انھوں نے چین کے لیے ایک انٹرنیٹ کمپنی کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا۔

انٹرنیٹ کمپنی قائم کرنے کی کوشش میں، جیک ما کی پہلی دو کوششیں ناکام رہیں۔ 4سال بعد انھوںنے 17دوستوں کو اپنے اپارٹمنٹ پر اکٹھا کیا اور انھیں مجوزہ طور پر ’علی بابا‘ نامی آن لائن مارکیٹپلیس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے پر راغب کیا۔

اکتوبر 1999ء تک یہ کمپنی25ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکی تھی۔ 2000ءکے اوائل تکجیک ما ’ای بے‘ کی طرز پر چینی حریف کمپنی ’ٹاؤ باؤ‘کی بنیاد بھی رکھ چکے تھے۔ 2005ء میں ’یاہو‘ نے 40فیصد شراکت داری کے بدلے ’علی بابا‘ میںایک ارب ڈالر سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا۔

2014ء میں جیک ما نے ایک معروف غیرملکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے ’علی بابا‘ کی کامیابی کو ان الفاظمیں بیان کیا، ’’ریستوران میں کھانے کے بعد ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا، ’میں علی بابا گروپ کا کسٹمر ہوں، میں اس سے اچھی خاصی رقم کمارہا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ آپ اس سے ابھی تک پیسہ نہیں بنارہے، اس لیے آپ کے کھانے کا بل میںادا کروں گا‘‘۔

جیک ما نے علی باباکے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدے سے 2013ء میں علیحدگی اختیار کرلی تھی اور صرف ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ اپنے پاس رکھا تھا۔ 19ستمبر 2014ء کو ’علی بابا‘ نیویارک اسٹاک ایکسچینج پر لسٹ ہوئی، اس موقع پر جیک ما نے ایک ٹیلی ویژن چینل کو بتایا تھا، ’آج ہم نے جو چیز حاصل کی ہے وہ لوگوں کا پیسہ نہیں، ان کا اعتماد ہے‘۔

نیویارک اسٹاک ایکسچینج کی تاریخ میں 150 ارب ڈالر کے ساتھ امریکا میں لسٹڈ کسی بھی کمپنی کا یہ سب سے بڑا ’آئی پی او‘ تھا۔ اس آئی پی او کے ساتھ جیک ما، چین کے امیر ترین شخص بن چکے تھے اور اس وقت ان کی دولت کا تخمینہ 25ارب ڈالر لگایا گیا تھا، جو فوربز کے مطابق، بڑھ کر اب 38.5ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ جیک ما کی یہ دولت ’علی بابا‘ میں 7.8فیصد اور پے منٹپراسیسنگ کمپنی ’علی پے‘ میں 50فیصد کی شراکت داری سے آتی ہے۔

جیک ما سحر انگیز شخصیت کے مالک انسان ہیں۔ وہ جب بولتے ہیں تو دنیا انھیں دھیان سے سُنتی ہے، جن میں سربراہانِ مملکت، ٹاپ بزنس لیڈرز، انٹرپرینیورز اور طلبا سب ہی شامل ہیں۔چین کا امیر ترین شخص ہونے کے باوجود، جیک مامیں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ ان کے دوستوں کے مطابق وہ اب بھی ’اولڈ فیشنڈ‘ ہیں۔ ادب میں وہ ’کنگ فو‘ کہانیاں پڑھنے اور لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

انھیں پوکر کھیلنا، مراقبہ کرنا اور تائی چی پریکٹس کرنا پسند ہے۔ جیک ما ذاتی زندگی کو میڈیا کی چکاچوند سے الگ رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی شریک حیات کا نام زھینگ یِنگ ہے، جن سے وہ اسکول کے زمانے میں ملے تھے اور گریجویشن کے بعد شادی کرلی تھی۔ ان کے دو بچے ہیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی ۔

جیک ما نے ’علی بابا‘ میں اپنے جانشین کے طور پر ڈینیل زھینگ کا انتخاب کیا ہے، جو 2015ء سے بطور سی ای او خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جیک ما نے ڈینیل زھینگ کو جانشینی سونپنے کے لیے 10سال تک تیار کیا ہے۔ اکثر اوقات قیادت کی تبدیلی کاروباری اداروں میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے، تاہم علی بابا اور ڈینیل زھینگ پہلے ہی ایک دوسرے سے اچھی طرح مانوس ہیں۔

ڈینیل زھینگ کے بارے میں جیک ما کہتے ہیں، ’’بطور چیف ایگزیکٹو آفیسر ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد، ڈینیل نے اپنی بہترین ذہانت، کاروباری سوجھ بوجھ اور لیڈرشپ خصوصیات کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی قیادت میں علی بابانے مسلسل 13سہ ماہیوں تک پائیدار ترقی دِکھائی ہے۔ وہ بہترین تجزیاتی ذہن کے مالک ہیں اور کمپنی کے مشن اور ویژن کو بہت پیارا اور دل کے قریب رکھتے ہیں‘‘۔

جیک ما اب اپنا وقت پڑھانے (جوکہ ان کا ہمیشہ سے اولین شوق رہا ہے) اور انسان دوست سرگرمیوں (Philanthropy) کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ ’علی بابا پارٹنرشپ‘ میںاپنا کردار جاری رکھیںگے۔ ’علی بابا پارٹنرشپ‘ 38افراد پر مشتمل ایک ایسی گورننگ باڈی ہے، جس کا ’علی بابا گروپ‘ کی گورننس میں بالواسطہ کردار رہتا ہے۔