آزادی مارچ اور 2014 کے دھرنوں میں سیاسی صف بندی اور وجوہات یکساں

October 10, 2019

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ) آزادی مارچ اور 2014کے دھرنوں میں سیاسی صف بندی اور وجوہات یکساں ہیں۔2014کے پی ٹی آئی دھرنوں اور مولانا فضل الرحمان کے موجودہ آزادی مارچ کا اگر جائزہ لیا جائے تو دونوں کے بیانیوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، صرف کردار بدل گئے ہیں۔پہلے بھی یہ کہا گیا تھا اور اب بھی یہی بیانیہ ہے کہ پرامن احتجاج ہمارا جمہوری، آئینی اور قانونی حق ہے۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)اور پاکستان عوامی تحریک (پیٹ)کے 2014کے دھرنوں کا سیاسی اتحاد جے یو آئی (ف)کے آزادی مارچ کے موقع پر بھی برقرار ہے۔اس مرتبہ پی ٹی آئی، پیٹ اور ق لیگ ایک طرف تھیں ، جب کہ ن لیگ، پیپلز پارٹی ، جے یو آئی(ف)، اے این پی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل دوسری جانب تھیں۔البتہ اس وقت ایم کیو ایم پی ٹی آئی کی مخالف تھی۔ اس بار ایم کیو ایم (پاکستان)، پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی ہے۔اس کے علاوہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی پی ٹی آئی کی اتحادی ہے۔آزادی مارچ کے موقع پر ن لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی فعال طریقے سے احتجاج کا حصہ بننے کے معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، البتہ اخلاقی اور سیاسی طور پر اس کے ساتھ ہیں۔تاہم ان کا حتمی فیصلہ جو بھی ہوگا یہ واضح ہے کہ ان کے جذبات جے یو آئی(ف)کے ساتھ ہیں۔اختلافات کے باجود اپوزیشن جماعتیں مشترکہ اجلاس کررہی ہیں۔2014 میں چھوٹی بڑی پارلیمانی قوتوں نے یہ کہتے ہوئے حکومت کی حمایت کی تھی کہ وہ پارلیمنٹ پر حملے کی اجازت نہیں دیں گے۔پیپلزپارٹی مستقل ن لیگ کو یہ یاددہانی کراتی رہی کہ اس نے جمہوری اصولوں کی وجہ سے حکومت کا ساتھ دیا ہے۔پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو اپنا سیاسی کعبہ سمجھتے ہیں اور وہ اسے کبھی بدنام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔2014کے دھرنوں میں پی ٹی آئی نے اپنے کارکنان کی مدد سے عوام کو متحرک کرنے پر خاصی محنت کی تھی ، اسی طرز پر مولانا فضل الرحمان بھی کئی ماہ سے کررہے ہیں۔تاہم، موجودہ حالات اور 2014 کے حالات میں بہت فرق ہے۔جے یو آئی(ف)اپنے طور پر تنہا ہی آزادی مارچ کرنے جارہی ہے۔وزیراعظم عمران خان کا نقطہ نظر البتہ کچھ مختلف ہے۔