چابی دے باوے

October 20, 2019

مولانا صاحب کے آزادی مارچ، دھرنے کے رولے سے تنگ آئے حکمران اور مہنگائی، بیروزگاری، مایوسی سے پریشان قارئین انتہائی سنجیدہ ماحول میں غیر سنجیدگی سے تھوڑا سا اپنا دل بہلا لیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر بڑے بڑے فنکار، تخلیق کار، تعفن زدہ سیاسی ماحول میں بڑے خوب صورت انداز میں اپنے دل کی بات ایسے کہہ جاتے ہیں کہ دل شاد ہو جائے۔ سوشل میڈیا کے پطرس فرماتے ہیں ’’حکمرانوں نے شریفوں کی کرپشن دکھاتے دکھاتے، پیٹرول، گیس، بجلی مہنگی کر دی ایسے ہی جیسے بچپن میں چڑیا دکھا کر مسلمانیاں کر دیتے ہیں اور پھر دل بہلانے کو ہاتھ میں چابی دے باوے پکڑا دیتے تھے‘‘۔ ذرا مسکرائیے، قہقہے لگائیے، روٹی کے بجائے ٹھنڈی ہوا کھائیے آج کے دور میں ذہنی آسودگی اور صحت برقرار رکھنے کا یہی سستا ترین، بہترین نسخہ دستیاب ہوا ہے کیونکہ چابی دے باوے ہی آج کل ہمارے اردگرد گھوم رہے ہیں۔ جس کو جتنی چابی دی جاتی ہے وہ اتنا ہی ناچتا ہے، تالیاں بجاتا ہے اور چابی ختم ہونے پر ٹھس سے زمین پر اوندھے منہ پڑا نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی کسی چابی دے باوے کو ضرورت سے زیادہ چابی دے دی جاتی ہے تو اس کی گراریاں ہی ٹوٹ جاتی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ناکارہ ہو جاتا ہے پھر اس کا اصل مقام کباڑ خانہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کھلونے بچوں کی خوشی، راحت، ذہنی و جسمانی نشوونما کا ساماں ہوتے ہیں۔ یہ کھلونے کب، کیوں، کس نے ایجاد کئے، تاریخ اس حوالے سے خاموش ہے لیکن صدیوں سے ہر عمر کا انسان، بچہ، بوڑھا، مرد و خاتون ان سے اپنا دل بہلانا پسند کرتے ہیں۔ خیال یہی کیا جاتا ہے کہ انسان نے پہلے مٹی دے باوے بنائے پھر مشین ایجاد ہوگئی تو نت نئے چابی دے باوے بنائے گئے۔ ہمارے بچپن کے کھلونوں میں دم ہلاتا ڈوگی، میائوں میائوں کرتی بلی، آنکھیں مٹکاتی گڑیا، تالیاں بجاتے، ڈھول پیٹتے بندر، چھک چھک کرتی، لڑھکتی لڑھکاتی ٹرین، ہوا میں نہ اڑنے والا جہاز، ٹڑک ٹڑک کرتی مٹی گارے، کاغذ، لکڑی کی بنی بیل گاڑی، پانی کی پچکاری مارتی پستول، پھر پلاسٹک کی گولیوں سے چلنے والی کلاشنکوف نما بندوقیں اور کمہار کے ہاتھ کے بنے گھگو گھوڑے نمایاں ترین کھلونوں میں شمار کئے جاتے تھے اور ذہنی نشوونما کی خاطر لڈو اور ’’بینک‘‘ مصنوعی کرنسی نوٹوں پر مبنی یہ کھیل بھی بڑی کشش کا باعث تھا۔ مگر یہ گورا صاحب بھی کمال کا ذہین، شاطر اور چالاک ہے۔ اس کے کمالات دیکھیں تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اس کی سوچ کو چھونا ہم جیسے کند ذہنوں کے بس کی بات نہیں۔ وہ ٹھہرا ذہین، فطین، ہم رہے مسکین کے مسکین۔ کمال کا ذہن پایا ہے گورے صاحب نے خود ہی سوچے، خود ہی ہم پر تجربے کرے اور دنیا کو دکھائے نئی نئی ایجادات اور ہمارے لئے برباد سہانے خواب۔ کمال نہیں ہوگئی گورے صاحب کے انتہائی ذہین ہونے کی۔ ایسے ایسے کھلونے ایجاد کئے کہ انسان خوشی سے مر ہی نہ جائے۔

اب آپ بچوں کے کھلونوں کی تاریخ کو ہی کھنگالیں تو انسانی حیرت انتہا کو چھونے لگتی ہے کہ اس گورے کے ذہن میں کس وقت کیا چال چل رہی تھی اور اس نے ماضی کے حالات کو کھلونوں کی شکل میں کیسے کیسے رنگ اور ڈھنگ میں ڈھالا۔ مستقبل میں ان کھلونوں کے کیا اثرات مرتب ہوئے تو آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ گورے صاحب کی ذہانت کا اندازہ تو لگائیں اپنے لئے خوب صورت گوریوں کی شکل والی ’’باربی ڈول‘‘ بنائی تو پوری دنیا کو اپنے سحرمیں لے لیا اور اپنے معاشرے میں خوشیاں ہی خوشیاں بکھیر لیں اور ہمیں توپوں گولوں کی شکل کے کھلونے بنا کر جنگ و جدل میں دھکیل دیا۔ خود نت نئی رنگوں ڈیزائنوں والی کھلونا نما ’’ڈنکی کاریں‘‘ بنائیں اور پوری دنیا کی سڑکوں پر فراٹے بھرنے لگا اور ہم ٹھہرے گنوار کے گنوار۔ ہم نے بنائے مٹی کے مادھو، گھگو گھوڑے، چابی والے ڈگڈگی بجاتے بندر، کمال نہیں ہوگیا؟ کھلونوں کی تاریخ نسلوں کے مستقبل کا پتا دیتی ہے۔ کبھی کسی نے سوچا کہ آج بھی ہمارے سادہ لوح لوگ چابی دے باوں کو ہی کیوں پسند کرتے ہیں اور ان کی حرکتوں پر تالیاں کیوں بجاتے ہیں؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ کو ہرطرف ڈگڈگی بجاتے یہ چابی دے باوے نظر آئیں گے، کبھی نفاذ اسلام کے نام پر تو کبھی موڈریٹ پاکستان۔ بنے گا نیا پاکستان اور آزادی مارچ کے نام پر ہمارے سامنے ایسی ڈگڈگی بجائی جاتی رہی ہے اور آئندہ بھی بجائی جاتی رہے گی کہ جیسے یہی ہمارا مستقبل ہو۔ آخر کب تک ہم اپنے ذہنوں سے غلامی کا طوق نہیں اتاریں گے اور ڈگڈگی بجاتے ان چابی دے باووں کے ہاتھوں اپنا مستقبل برباد کرتے رہیں گے اور گورے کی ایجاد کردہ اس نسل سے چھٹکارا نہیں پائیں گے؟ کیا ہمارے نصیب میں یہ چند چابی دے باوے اور بے پیندے کے لوٹے ہی رہ گئے ہیں جو گھوم پھر کر اقتدار کی چابی ایسے گھماتے ہیں کہ ہر بند دروازہ کھلتا ہی چلا جائے۔ کیسی بدنصیبی ہے کہ ہم 77سال میں ایک بھی ایسا کھلونا ایجاد نہیں کر سکے کہ جس پر پوری قوم نازاں ہو۔ یہ المیہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی خال خال گدڑی کا لعل پیدا ہی ہوگیا تو اس کا انجام پھانسی، کال کوٹھڑی، جلاوطنی کی سزائیں یا غداری، چور، ڈاکو کرپٹ ہونے کے لیبل ہی اس کا مقدر کیوں بنے؟ کھیل تماشا بہت ہوگیا اب زمانہ بدل گیا۔ آج انسان آزاد کھلی فضائوں میں اڑنا چاہتا ہے، پنجرے میں بند پرندے جب اڑ نہیں پاتے تو معذور ہو جاتے ہیں اور اونچی اڑان بھرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اب چابی دے باوے تیار کرنے والی فیکٹریوں کو بھی اپنی بوسیدہ ایجادات پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ یہ گھگو گھوڑے، چابی دے باوے کسی بھی صورت ہمارا مستقبل نہیں۔ ویسے ایک بات پوچھوں؟ یہ پاکستان مانومنٹ پر برطانوی شاہی جوڑے کے اعزاز میں تقریب کے دوران کچھ چابی دے باوے رکشے پر کیوں نہیں بیٹھے؟ اور شاہی پروٹوکول نے انہیں اپنے سے دور کیوں کر دیا؟ لگتا یہی ہے شاہی مہمانوں نے چابی دے باوں کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا کیونکہ گورا بڑا دُور اندیش ہے۔