عوام بے صبرے ہیں؟

October 20, 2019

عمر چھبیس سال اور تعلیم بی بی اے، لباس سے متوسط گھرانے کا لگتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ابھی آنکھوں سے غم کا سمندر ابل پڑے گا۔ میرے اشارے پر جب بولا تو اس کا لہجہ انتہائی جذباتی تھا۔ وہ یوں گویا ہوا: کئی سالوں سے ہائوسنگ سوسائٹیز میں پراپرٹی کی خرید و فروخت سے منسلک ہوں۔ میں پوجنے کی حد تک آٹھ سالوں سے تحریک انصاف کا پیروکار اور اس کی پالیسیوں کا دفاع کرتا رہا ہوں۔

میرے گروپ میں اکثریت نوجوان اور جائیداد اور بل بورڈز کے کاروبار سے منسلک افراد کی تھی، جو ہر روز کئی ہزار روپے کئی سالوں سے کما رہے تھے۔ میری طرح انہیں بھی یقینِ کامل تھا کہ کرپشن کو شکست ہوگی اور وطن عزیز ترقی کی ایسی راہ پر گامزن ہو جائے گا کہ ہم سب اس پر فخر کریں گے اور دنیا میں ہمارا نام ہوگا۔ ہم اور ہم جیسے سینکڑوں ہزاروں نوجوانوں نے عمران خان حکومت کیلئے نہ صرف دعا کی بلکہ سوشل میڈیا پر دن رات کام کیا۔

جب ہماری حکومت آئی تھی تو ایسے لگتا تھا کہ ہر دن عید اور رات شب برات ہوگی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ تبدیلی کا جو خواب دکھایا گیا تھا وہ کب کا چھومنتر ہو چکا ہے۔ حکومت کی نام نہاد ٹیم کو یہ بھی نہیں معلوم کہ امریکہ ہو یا برطانیہ، سوئٹزر لینڈ ہو یا عرب ریاستیں دنیا بھر میں پراپرٹی انڈسٹری ایسی بلیک اکانومی ہے جسے بالکل بھی نہیں چھیڑا جاتا کہ اس سے نہ صرف سینکڑوں انڈسٹریز کا پہیہ چلتا ہے بلکہ لاکھوں کروڑوں گھروں کے چولہے جلتے ہیں جن میں حکومت کو کسی قسم کی سرمایہ کاری بھی نہیں کرنا پڑتی۔ یہ انڈسٹری نہ صرف لوگوں کیلئے روزگار کی فراہمی کا بندوبست کرتی ہے بلکہ اس سے ٹیکسوں کی وصولی مسلسل جاری رہتی ہے اور خزانہ کبھی خالی نہیں ہوتا۔ حکومت نے ایسی ناقابلِ فہم پالیسی بنا دی ہے جس کے نتیجے میں جائیداد کی خرید و فروخت عملی طور پر بند ہو چکی ہے۔ اینٹ، ریت، سیمنٹ، سریا و دیگر اشیاء کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں ہوشربا اضافے نے کنسٹرکش انڈسٹری کو ایک ایسے بھنور میں پھنسا دیا ہے کہ جس سے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کنسٹرکشن انڈسٹری بالکل ہی بیٹھ چکی ہے۔ پانچ مرلہ مکان بنانا، تین سے چار ماہ میں فرخت کرنا نہ صرف بہترین منافع کمانے کی ضمانت تھا بلکہ حکومت کیلئے بھی پُرکشش ٹیکس اکٹھا کرنے کا باعث تھا لیکن نام نہاد افلاطونوں نے اس کاروبار کو ایسی زک پہنچائی کہ اب ٹیکسوں اور دیگر ذلتوں سے بچنے کیلئے چھوٹے، درمیانے اور بڑے سرمایہ کار مکانات تعمیر کرنے کے کاروبار کو چھوڑ کر رقم قومی بچت میں ڈالنا شروع ہو گئے ہیں۔

کاروبار ٹھپ ہونے، نیا کام نہ ملنے اور سابقہ واجبات کی عدم وصولی پر اسٹیل شٹرنگ سے منسلک ایک دوست قرضے واپس نہ کر سکا اور خودکشی کر لی، اس کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ بڑی ہائوسنگ سوسائٹیوں میں ہر روز سینکڑوں ٹرانزیکشنز ہوا کرتی تھیں لیکن ایف بی آر، ٹی ایم اے دیگر ٹیکسوں، نان فائلرز اور فائلر کی کشمکش نے اس کاروبار کو بھی سمیٹ دیا ہے۔ ملک میں نئی انڈسٹری تو کیا لگنا تھی، پہلے سے قائم انڈسٹریز کو بھی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں تو کہا گیا تھا کہ ہمارے پاس دو سو ماہرین کی ٹیم موجود ہے جو آتے ہی حالات بدل دے گی۔ لیکن ان نام نہاد ماہرین ِ معاشیات نےحکومت کو ٹیکس اکٹھا کرنے کی پٹی تو پڑھا دی لیکن یہ آسان ترین بات نہیں سمجھائی کہ پہلے کاروبار تو ہونے دو، اگر یہ چلے گا تو ہی ٹیکس ملے گا۔ سابق منصفِ اعلیٰ نے سالانہ اربوں روپے کا ٹیکس دینے والی بل بورڈ انڈسٹری کو تہہ تیغ کر ڈالا۔ حکومتی سرپرستی اور ایما پر ملک بھر میں بل بورڈ پر پابندی لگا کر لاکھوں خاندانوں کے رزق بند کردئیے۔ دگرگوں حالات میں جہاں ڈالر ایک سو ساٹھ کو چھو رہا ہے، وہاں مہنگائی کا اژدھا کھلم کھلا پھنکار رہا ہے جبکہ چیئرمین ایف بی آر، وزیر خزانہ سمیت دیگر وزرا بڑے فخر سے اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ ہم کامیابی کی راہ پر گامزن ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب ایک سال میں صورتحال یہ ہوگئی ہےکہ ہر طرف بے یقینی نے ڈیرے ڈال دئیے ہیں۔ ڈالر بڑی تیزی سے ہماری معیشت کو کھا رہا ہے۔ کوئی سرمایہ کار یہاں آنے کو تیار نہیں۔ اسٹاک ایکسچینج کے تمام اشاریے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ معیشت تنزلی کی طرف جا رہی ہے۔ عوام کو مہنگائی کے عفریت تلے زندہ درگور کیا جا رہا ہےجبکہ حکومتی موقف ہے کہ عوام بہت بے صبرے ہیں، تیرہ ماہ بعد ہی تبدیلی مانگ رہے ہیں۔