آؤ بائیکاٹ کریں…

October 21, 2019

تحریر: جلال چوہدری ۔۔۔ ایڈنبرا
بھارت کے مقبوضہ کشمیر میںحالیہ مظالم کے پیش نظر پاکستان اور دیارغیر میں بسنے والا ہر پاکستانی پریشان ہے اور مختلف طریقوں سے اپنے اس غم اور دکھ کا اظہار کررہا ہے اور آج کل سوشل میڈیا، پرنٹنگ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے شدت سے اس بات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ بھارت میں تیار ہونے والی تمام اشیاء کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ خصوصاً ان ممالک میں جہاںپاکستانی تارکین وطن آباد ہیں بہت اچھی سوچ ہے، قابل تعریف ہے۔ دانش مند لوگوںکا کہنا ہے کہ دوسروں کے تجربات اور کمزوریوں سے سبق سیکھ کر کوئی قدم اٹھانا اور لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔ چہ جائیکہ خودہی اپنی جان جوکھوں میںڈال کر کوئی سبق حاصل کیا جائے۔ بھارت نے پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ یہ برتائو پہلی ہی دفعہ نہیں کیا اس سے پہلے کئی مرتبہ ایسا کرچکا ہے۔ آخری حادثہ 1971ء کی جنگ ہے۔ جب مشرق پاکستان بنگلہ دیش میںتبدیل ہوا تھا۔ آج سے نصف صدی قبل اس وقت میں ایڈنبرا یونیورسٹی میں گریجویشن کے آخری سال میںتھا ان دنوںدولت مشترکہ کے ممالک کے طلبا کو برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے برٹش کونسل کی طرف سے اسکالرشپ کی بھرمار تھی۔ خود ہماری یونیورسٹی میںدو سو سے زیادہ طبا ایسے تھے جو بھارت اور پاکستان سے آئے تھے ہم سب آپس میں اچھی طرحرہتے تھے کہ اچانک مشرقی پاکستان میں سیاسی بے چینی پیدا ہوگئی۔ بھارت نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں اتار دیں اور پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔ اس جنگ کے بعد ہم طلبا میں وہ پہلے والا میل ملاپ نہ رہا تھا۔ بھارتی اور بنگالی آپس میں بہت قریب ہوگئے تھے ہمیں دیکھ کر دور سے راستہ بدل لیتے۔ ہم خود بھی ہندوستانی طلبا سے میل ملاقات سے ہچکچاتے تھے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی ایڈنبرا شہر میںپاکستان سے آئے ہوے طلبا کے علاوہ کوئی سو کےقریب ایسے گھر تھے جو پاکستانی تارکین وطن کے تھے صرف تین چار گھر ایسے تھے جو ہندو تھے اور ہندوستان سے آئے تھے۔ ہندوستان اور پاکستان سے آئے ہوئے لوگوںکیلئے اپنے کلچر سے متعلق اتوار کے روز سوائے ایک ہندی فلم کے، کچھ اور انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ نہ تھا اور اس فلم کیلئے ہم پورا ہفتہ انتظار کرتے۔ ڈھاکہ کی لڑائی سے پہلے تو ہم لوگ بھی جاتے تھے مگر لڑائی میںجگ ہنسائی کے بعد غیرت نے گوارا نہ کیا کہ ہم اپنے دشمن ملک کی فلم دیکھیں۔ لیکن ہم لوگوں میں سے کچھ افراد ایسے بھی تھے جن کیلئے یہ معمولی بات تھی وہ برابر فلم دیکھتے رہتے۔ ہماری یونیورسٹی کے کچھ پاکستانی نوجوان اکٹھے ہوئے اور انہوں نے ایک پاکستان ایکشن کمیٹی بنائی جس کا کام پاکستان کی بہتری کیلئے کام کرنا تھا اور سب سے پہلا کام ایڈنبرا شہر میں ہندوستانی فلم کو ناکام بنانا تھا اور اسی طرحہندوستان سے درآمد کی گئی تمام اشیاء کا بائیکاٹ کرنا تھا۔ سب سے مشکل کام اپنے پاکستانی لوگوںکو ہندوستانی فلم نہ دیکھنے پر راضی کرنا تھا۔ لیکن جواب میں وہ اس کے دفاع میںعجیب قسم کی تاویلیں دیتے۔ گو چند ایک نے ہماری بات مان کر ایڈنبرا میںتو فلم دیکھنا چھوڑ دی تھی مگر اس کی بجائے گلاسگو میںجاکر اپنا شوق پورا کرنا شروع کردیا۔ ہمارے پاس اس مشکل کا صرف ایک ہی حل تھا وہ یہ کہ ہم لوگ بھی اس کے مقابلے میں فلم دکھانا شروع کردیں اور وہ فلم پاکستانی ہو۔ برمنگھم میںسٹراٹفورڈ روڈ پر شاہ جی برادران کا دفتر تھا وہ پاکستانی فلمیں پاکستان سے لاتے تھے اور برطانیہ کے مختلف شہروں میںدکھائی جاتی تھیں ہم نے ان سے رابطہ کیا لیکن ایک تو پاکستانی فلموں کا کرایہ ہندوستانی فلموں کے مقابلہ میںزیادہ تھا دوسرے کوالٹی میںوہ ہندوستانی فلموںکے مقابلہ میںکم تر تھیں۔ مگر حالات کے پیش نظر ہمارے لوگوں نے حب الوطنی کا مظاہرہ کیا اور ایڈنبرا شہر کی حد تک ہم لوگ ہندوستانی فلموں کو ناکام کرنے میںکامیاب ہوگئے تھے۔ اب اس کے بعد دوسرا مسئلہ ہندوستان سے درآمد کی گئی اشیاء کا بائیکاٹ تھا اور حالت یہ تھی کہ تمام ایشین دکانیں ہندوستان سے امپورٹ کئے گئے سامان سے بھری پڑی تھیں اور اس سامان کے خریدار 90فیصد پاکستانی تھے۔ ہماری جدوجہد کی وجہ سے پاکستانی خریداروں نے اس سامان کا کافی حد تک بائیکاٹ تو کردیا تھا۔ مگر معاملہ تھاتازہ سبزیوں کا ان دنوںایشین سبزیاں صرف ہندوستان ہی سے درامد کی جاتی تھیں اور ان سبزیوں کو درآمد کرنے والوں میںاکثریت پاکستانی تاجروں کی تھی۔ ان تاجروں سے بات کی گئی کہ آپ لوگ تازہ سبزیاں ہندوستان کی بجائے پاکستان سے امپورٹ کریںمگر خاطرخواہ کامیابی نہ ہوئی۔ کوئی تاجر رسک لینے کیلئے تیار نہ تھا آخر میں ایک صاحب تیار ہوگئے وہ مانچسٹر میںرہتے تھے نیک پابند صوم صلوٰۃ تھے تازہ سبزیوں کی امپورٹ ان کا فیملی بزنس تھا۔ ہمت کرکے وہ پاکستان روانہ ہوگئے اور لاہور سبزی منڈی میںڈیرہ لگادیا وہ وہاںسے مال بھیجتے اور ان کے بیٹے مال کو مختلف شہروںمیں تقسیم کرتے۔ ان دنوںذرائع ابلاغ کا صرف ایک ہی ذریعہ تھا وہ تھا ’’ایشیاء اردو ویکلی‘‘ محمود ہاشمی صاحب اس کے ایڈیٹر تھے اس میں وطن عزیز کی خبریں بھی ہوتی تھیں۔ لوگ ہفتہ بھر اس اخبار کا انتظار کرتے تھے بڑا مقبول اخبار تھا۔ ہم لوگوں نے اس اخبار میں اشتہارات دیئے، آرٹیکل لکھے گئے برطانیہ میںبسنے والے پاکستانیوںمیںجذبہ حب الوطنی کو اجاگر کرنے کی مہم جاری کی گئی اور لوگوںکو اپنے وطن سے درآمد کی گئی تازہ سبزیاںخریدنے پر آمادہ کرتے۔ پاکستانی دکانداروں نے بھی تعاون کیا دکان میںاشتہار لگائے کہ ہماری دکان پر سبزیاں پاکستان سے امپورٹ کی گئی ہیں۔ پاکستانی خواتین نے بھی صرف پاکستانی سبزیاںہی خریدنا شروع کردیں۔ ہندوستان سے درآمدکرنے والے کاروباری لوگ بہت پریشان ہوئے ان کی تجارت آدھے سے بھی کم رہ گئی۔ اس کے مقابلہ میں پاکستانی مال ہاتھوں ہاتھ بکتا رہا۔ دو مہینے تو ایسے گزرگئے پھر کیا ہوا کہ مال کی کوالٹی میںکمی آنا شروع ہوگئی۔ دو نمبر مال آنا شروع ہوا چند روز تو گھریلو خواتین نے برداشت کیا۔ برابر حب الوطنی کا مظاہرہ کرتی رہیں آخر کب تک اباجی جو پاکستان سے مال بھیجتے تھے۔ برطانیہ میںان کے بچوں نے ان کو کہا کہ مال بہت خراب آرہا ہے آپ یہاں کیا کررہے ہیں مارکیٹمیںمال کی مانگ کم ہوگئی ہے۔ ان کے ابو وہاںاپنے طور پر پریشان کہ ایسا کیوںہورہا ہے اپے آنکھوں کے سامنے مال ٹوکریوںمیں پیک کرواتے ہیں اور ان ٹوکریوں کو اسی طرحلاہور ائرپورٹ پر پی آئی اے سے لوڈ کراتے ہیں۔ دوران سفر لندن پہنچنے تک مال ایک نمبر سے دونمبر کیسے ہوجاتا ہے۔ تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ جب ابا جی مسجد میںجماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے جاتے تھے تو ان کی مختصر سی غیرحاضری میںایک نمبرمال والی کچھ ٹوکریوں کو دونمبر والی ٹوکریوں سے بدل دیا جاتا تھا۔ اباجی ایسے بددل ہوئے اپنا لوٹا مصلا لاہور سبزی منڈی سے اٹھایا اور سیدھے مانچسٹر آگئے۔ کہتے ہیں کہ بھارت کا بنیا جب کوئی کاروبار شروع کرتا ہے تو اس کے مدنظر یہ ہوتا ہے کہ میںنے کاروبار اپنی آنیوالی نسلوںکیلئے قائم کرنا ہے۔ ایماندار، مال کی کوالٹی، گاہک کے اعتماد کو خصوصی توجہ دینی ہے۔ بھلے ہی آج منافع کم ہو لیکن اس کے پوتے اور پڑپوتے اس سے ضروری فائدہ اٹھائیں گے اور ہمارا حال یہ ہے کہ آنے والی نسلیں جائیں بھاڑ میں ہم نے تو راتوں رات امیر ہونا ہے ہم نے کاروبار نہیں جوا کھیلنا ہے۔ آج کل بھی بھارت اور پاکستان کے حالات کچھ 1971ء جیسے ہیں محب وطن لوگ یہ آواز اٹھا رہے ہیں کہ ہم کو بھارت کی بنی ہوئی اشیاء کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ بڑی اچھی بات ہے ہم نے بھی تو کوشش کی تھی آپ بھی کردیکھیں شاید اب پاکستانی لوگوں کی ذہنیت بدل چکی ہو، گڈلک۔