قومی کشمیر مارچ لازم ہو گیا

October 30, 2019

فاشسٹ مودی حکومت کا بھارت کے آئین کی آرٹیکل 370کو غیرآئینی طور پر منسوخ کرنے کا ہٹلرانہ اقدام، 3ماہ سے کرفیو کی پابندی میں جکڑے اور تمام بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیئے گئے 80لاکھ کشمیریوں اور اُن کے سرگرم وکیل پاکستان کو زبردست فائدہ کی شکل میں ٹرانسلیٹ ہوا ہے۔

اس طرح پوری دنیا پر بالکل عیاں ہو گیا ہے کہ ’’بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر کی 80لاکھ کی آبادی اب بھارت کے ساتھ کسی بھی حیثیت و حالت میں رہنے کے لئے آمادہ نہیں، جبکہ بھارت اپنی داخلی سلامتی، گرتی معیشت کے بڑے اقتصادی بحران میں تبدیل ہونے، دنیا کی نظر میں گرنے اور عالمی و علاقائی سیاست میں تنہا ہو جانے کا خطرہ مول لے کر بھی، لاکھوں کی افواج اور بھاری بھرکم دفاعی بجٹ کے ساتھ، ہر حال میں مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرنے، اقوام متحدہ کی قراردادوں حتیٰ کہ کسی نئی عالمی یا علاقائی ثالثی کو نہ مان کر دنیا میں تنہا رہ جانے کی قیمت پر بھی محبوس کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کے لئے آمادہ نہیں۔‘‘

اپنی اس حیثیت اور مقبوضہ کشمیریوں کی تمام تر مظالم سہتے، لی گئی تاریخ ساز پوزیشن نے بھارت کو جتنی بڑی اور جتنی جلد سفارتی شکست سے دوچار کیا ہے، پاکستان اور خود کشمیری آئندہ دس سال تک بھی اتنے اہم صدارتی اہداف حاصل کرنے کا تصور نہیں کر رہے تھے۔

مددِ خدا ملاحظہ فرمائیں، فاشسٹ مودی حکومت اور اس کی سیاسی بنیاد دہشت گرد راشٹریہ سیوک سنگ کے مذموم عزائم کے عمل میں ڈھلنے کی دیدہ دلیری نے پاکستان اور کشمیریوں کے کتنے ہی چھوٹے بڑے اہداف کے حصول کو ممکن بنا دیا بلکہ 370کی (اور 35اے کی بھی) غیر آئینی تنسیخ اور مقبوضہ کشمیر میں اس کے یقینی طوفانی ردِعمل کے خوف سے ظالمانہ کرفیو کو 3ماہ تک جاری رکھنے کے فاشزم نے:

٭بھارت کے سفارتی اہداف کے بالکل برعکس، مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ اور علاقائی تو کیا، انتہا کا قابلِ توجہ اور مکمل عالمی مسئلہ بنا دیا، جس کا دنیا بھر میں تجزیہ پاک بھارت ایٹمی طاقت کے توازن کے بغیر ہو ہی نہیں رہا اور اگر ہو رہا ہے تو وہ ادھورا ہے۔

٭ بنیادی انسانی حقوق کے معتبر ترین عالمی فورمز یو این ایچ آر سی، جینو سائیڈ واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ٹھیک ٹھاک سنجیدہ اور پریشر والے کنسرن بھارتی حکومت کے خلاف اور کشمیریوں کے حق اور پاکستان کی تائید میں آ چکے ہیں۔

٭ مقبوضہ کشمیر میں جبر و استبداد کے بدترین 3ماہ کے بعد یورپی یونین کے قانون سازوں کا وفد بالآخر مقبوضہ محبوس، کرفیو میں جکڑے علاقے کا ’’ان آفیشل وزٹ‘‘ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ یہ کامیابی ان سے زیادہ کشمیریوں کی ہے۔ اس لئے امید ہے کہ ان کی رپورٹ بھی بھارت کی فاشسٹ حکومت کو مزید بےنقاب کرے گی اور معاملہ اور آگے بڑھے گا۔

٭ اس سے قبل کشمیریوں کے اصل وکیل وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں طاقتور سوال کرکے، مسئلہ کشمیر پر عالمی ادارے اور مجموعی عالمی قیادت کے کردار کو جس طرح بےنقاب کیا ہے، وہ بےمثال ہے جو نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ سوال یہ تھا کہ ’’طاقتور اور بڑے ملکوں کا کاروباری مفاد زیادہ محترم ہے یا اقوام متحدہ کا چارٹر؟ جو انسانوں کو حصولِ حقِ خود ارادیت کی ضمانت دیتا ہے اور جس کے بغیر حقیقی عالمی امن ممکن نہیں‘‘۔

٭ جناب طیب اردوان اور جناب مہاتیر محمد نے اس باطل کا پردہ چاک کر دیا جب انہوں نے بھارت پر کشمیر کی پوزیشن کی قابض کی حیثیت کو جنرل اسمبلی میں کھل کر بیان کیا، اسے اپنا حکومتی موقف بنایا اور بھارت کی ترکی اور ملائیشیا سے بڑے سودے ختم کرنے کی دھمکی کو دونوں لیڈروں نے جوتی کی نوک پر رکھ کر دنیا کو بتا دیا کہ مصلحت کی ماری دنیا میں حق پرستی اور حق پرست کوئی مر نہیں گئے۔

٭آرٹیکل 370اور 35اے کے ختم ہونے سے بھارت داخلی عدم استحکام اور بڑے اقتصادی بحران اور سرمایہ کاری کے جمود میں مبتلا ہو گیا۔ اس پر پاکستان، کشمیریوں اور ہمارے چند ہی کھرے، سچے اور بہادر دوستوں کا جاندار موقف اور ہمت قائم دائم رہی تو بھارت گھٹنوں کے بل پر مذاکرات کی ٹیبل پر آئیگا جس کا استفسار امریکی حکومت اور قانون سازوں نے تو مودی حکومت سے کر لیا ہے کہ کب؟ ادھر برطانیہ کی حکمران پارٹی کشمیریوں کے حق میں اپنی پارٹی قرارداد پارلیمان میں بحث کیلئے لے آئی ہے، جس پر نئی دہلی تلملا گیا ہے۔

اس سارے پس منظر میں منزل کی طرف تیز تر سفر کے لئے لازم ہو گیا ہے کہ پاکستان اپنے پورے پوٹینشل کے ساتھ پورا دم لگا کر، مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کیلئے ایک منظم اور سرگرم فالواپ ڈیزائن کرے۔ اس کے آغاز کے لئے پارلیمان کا ایک اور مشترکہ اجلاس ضروری ہو گیا ہے، پھر ایک قومی مارچ مظفر آباد سے لاہور اور لاہور سے کراچی تک جس میں حکومت تمام اپوزیشن جماعتوں کو مکمل دلجمعی سے مدعو کرے۔

مولانا فضل الرحمٰن، ان کے ساتھی اور ہمرکاب ن لیگی اور پی پی کے رہنما عمران اور ان کی حکومت کے خلاف جو بھڑاس نکال رہے ہیں بغیر کسی رکاوٹ کے نکالنے دی جائے۔ استعفیٰ غلط اور غیرمنطقی مطالبہ ہے اسے کبھی بھی عوامی تائید نہیں ملے گی لیکن مولانا کا کتھارسس بھی اب لازم ہے۔

اصل ضرورت یہ ہے کہ عمران حکومت مولانا کی فراغت کے بعد کشمیر پر قومی مارچ کی تیاری کا اعلان اور اس کی تیاری کرے تاکہ بیرون ملک پاکستانی، کشمیری اور سوشل میڈیا گروپس بھی سرگرم ہوں اور مطلوب فالو اپ کا آغاز ہو۔ بہتر ہوگا کہ ’’قومی کشمیر مارچ‘‘ کا اعلان مولانا کے ’’آزادی‘‘ مارچ کے اسلام آباد پہنچتے ہی کر دیا جائے تاکہ اس سے کشمیر کے حوالے سے قوم و حکومت کی جو توجہ بٹی ہے، وہ مولانا کا مارچ دھرنا ختم ہوتے ہی بحال ہو جائے۔