معاشرے کی تباہی، قصوروار کون؟

November 03, 2019

ہم اس معاشرے کے باسی ہیں جو حلال کی روکھی سوکھی باسی روٹی کھانے کے بجائے سود، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، حرام خوری کی کمائی سے پنج تارے ریسٹورنٹ میں کتے اور گدھے کا گوشت کھانے پر فخر محسوس کرتا ہے۔

پھر کہتے ہیں very delicious، جو مزا حرام کھانے میں ہے وہ حلال میں کہاں؟ جو خوشی چوری کرکے کھانے میں ہے وہ جیب سے کھانے میں کہاں؟ ہم جب مفت خوری کی حدوں کو چھوتے ہیں تو لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ اللّہ نے آپ کو پہلے سے کتنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہم حق داروں کو حق دینے کے بجائے لنگر خانے کے مال پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں، پھر بھی پیٹ اور نیت نہیں بھرتی۔ کیسے لوگ ہیں ہم؟ کس اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں ہم؟ کیا سوچ ہے ہماری؟ ہوس ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، اب تو پانی سروں سے بھی گزر گیا۔

صرف عذاب الٰہی آنا باقی رہ گیا۔ پچھلی اقوام پر عذاب الٰہی نازل کیا گیا تھا شاید ہمارے اعمال ان بدبخت قوموں سے بھی زیادہ گندے ہیں۔

آج جو بدکاریاں، بداعمالیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں، گزشتہ زوال پذیر قومیں بھی اس امتحان سے کبھی نہیں گزری ہوں گی۔ ننھے فرشتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل، پھر ان کی لاشوں کی بے حرمتی، جب سر عام قانون کے محافظوں کے ہاتھوں معصوم شہری قتل ہونے لگیں تو پھر تحفظ، انصاف کیسا؟ جب مدارس، تعلیمی اداروں کے اساتذہ جنسی درندے بن جائیں تو پھر تعلیم کیسی اور تدریس کیسی؟ جب حکمران انصاف کے بجائے صرف ڈائیلاگ بازی پر اتر آئیں تو پھر کسی آفت کا خوف کیسا؟

بزرگ مثال دیتے ہیں کہ آپ ایک ہی وقت میں کسی دکان سے گُڑ کی ایک پیسی (ٹکڑا) خریدیں اور اسی لمحے دکان سے ایک ٹکڑا چوری کرلیں پھر باری باری دونوں ٹکڑوں کو الگ الگ سے کھائیں۔ یقین جانیں آپ اپنے پیسے سے خریدے گُڑ میں وہ مزا محسوس نہیں کریں گے جو چوری کا گُڑ کھانے میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹورز پر بھی ہیرے جواہرات میں کھیلنے والے مرد و خواتین دورانِ شاپنگ چوری کرتے پائے جاتے ہیں، محض اس لئے کہ ان کے اندر کے چور کو سکون ملے۔

آج شاید ہم بحیثیت (یہاں احتراماً ًپاکستانی لکھنا مناسب نہیں) قوم وہ ہجوم ہیں، جو تمام خرافات میں نمبر ون ہیں۔ سجدوں کے نام پر ماتھے بھی رگڑ رہے ہیں اور ماتھوں پر بڑی بڑی محرابیں بھی بن رہی ہیں لیکن دل کے بالکل کالے، اور پھر توقع رکھتے ہیں کہ اللّہ ہم پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے۔ کیا اللہ کو دھوکا دیا جا سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔

یہ ہم سب کی غلط فہمی ہے، خود فریبی اور اپنے آپ سے سب سے بڑی دھوکا بازی بھی۔ ہم بداخلاق بھی ہیں، دھوکے باز بھی ہیں اور سفاک بھی۔ کیا یہ سب اللّہ کے غضب کو دعوت دینے کے لئے کافی نہیں؟ سفاکیت کی انتہا دیکھئے، سیالکوٹ میں وکیل پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں ایک نہتی لڑکی پر لاتوں، گھونسوں کی بارش کر رہے ہیں تو لاہور میں خاتون وکیل ایک معزز شہری کو ذرا سی غلطی پر غلیظ گالیوں کے ساتھ تھپڑ رسید کر رہی اور گاڑی کے شیشے توڑتی نظر آتی ہے۔

کہیں وکیل کا ہاتھ جج کے گریبان پر ہے تو کہیں مطلب کا انصاف نہ ملنے پر سائل پر تشدد کیا جا رہا ہے۔

عدم برداشت جب حد سے گزر جائے تو انارکی پھیلنے لگتی ہے۔ آج ہم ایک گمنام منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انصاف ہوتا کہیں نظر نہیں آتا۔ ہمیں وہی انصاف چاہئے جو ہم چاہتے ہیں۔ بڑے سنگ دل لوگ ہیں ہم، خود غرض، مفاد پرست اور مصلحتوں کے شکار، شہرت، دولت کے بھوکے، نظر کے ننگے۔

مطلبی لوگ جب اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے فرائض کیا ہیں؟ کچھ یہی احوال آج کل ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور عوام کا نظر آتا ہے۔

ہماری نوجوان نسل اپنے مستقبل سے لاپروا ہٹ دھرمی پر اُترتی نظر آرہی ہے۔ کسی اور کی مثال کیا دوں، میں اپنی ہی بات آپ سے شیئر کرتا ہوں۔

میرا بیٹا اکثر کچھ ایسی چیزیں سوشل میڈیا پر شیئر کر دیتا ہے جو ایک صحافی کے طور پر مناسب نہیں۔ کئی بار روکا، ٹوکا، سمجھایا کہ ایسا مواد ہماری اعلیٰ صحافتی روایات کو متاثر کر سکتا ہے وہ مجھے دلیل کے طور پر دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ایسی ایسی ایڈیٹ شدہ وڈیوز اور غلط معلومات شیئر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی اور ہم پیچھے رہ گئے۔

وہ کبھی کبھی میری نصیحتوں سے تنگ بھی آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ ترقی نہیں کر سکتے۔ میں دنیا کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ آپ اپنی روایات کو بچا کر چلیں، مجھے ایسی صحافت نہیں کرنی جس میں ڈر ہو، خوف ہو۔

اب آپ ہی بتائیں جب نوجوان نسل کی سوچیں بکھر جائیں، وہ منفی رجحانات کو ہی ترقی کا زینہ سمجھنے لگے اور سوشل میڈیا وار کا غلط طور پر حصہ بن کر اپنے ہی معاشرے اور گھر کی تباہی کا سبب بننے لگے تو آپ کہاں کھڑے ہوتے ہیں؟ اس میں قصوروار کون ہے؟ میں، آپ، حکمران یا سیاستدان۔

جس معاشرے کی بنیاد جھوٹ پر کھڑی ہو اور جھوٹے نعروں پر سچائی کو ترجیح دی جائے اس معاشرے کی تباہی کوئی انوکھا سوال تو نہیں۔

رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے

اور روشن نگاہ آئینۂ دل ہے مقدر

بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے

ہو جاتے ہیں افکار پرگندا و ابتر