جناب گلزار سے درشن سنگھ آوارہ تک

February 21, 2013

اگر یہ بات پوری طرح واضح نہیں ہورہی کہ بالی وڈ کے مشہور فلمی گیت نگار جناب گلزار جو کراچی کی ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لئے بمبئی سے لاہور آئے تھے ضلع جہلم میں اپنے آبائی گاؤں اور علاقے کی سیر کے دوران معمول سے زیادہ جذباتی ہو کر اچانک ہندوستان واپس کیوں چلے گئے تو اس پر کچھ زیادہ پریشان، فکرمند یا ملول ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ غیرمعمولی واقعات اگر معمولات کا حصہ بن جائیں تو غیرمعمولی نہیں رہتے اور ہندوستان و پاکستان یا فلسطین اور اسرائیل جیسے ملکوں میں جہاں امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنا حساس اداروں کے فرائض منصبی کا حصہ ہوتاہے اکثر غیرمعمولی واقعات روزمرہ کا لازمی حصہ بن جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ”اس طرح ہی ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں“
گیت نگار گلزار کی اس بات پر بہت کم لوگوں نے غور فرمانے کی کوشش یا ضرورت محسوس کی ہوگی کہ ”اگرہندوستان میرا وطن ہے تو پاکستان میں میرا دیس ہے“ وطن اور دیس کا یہ فرق سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے گلزار صاحب کی پیدائش جس علاقے میں ہوئی تھی وہ پاکستان میں ہے اور ہندوستان کو گلزارصاحب کے والدین نے 1947 کے بعد اپنے وطن کے طور پر قبول کیا تھا ۔ وہ اپنے دیس سے محبت اور اپنی جنم بھومی سے پیار اور ہندوستان کے ذمہ دار شہری کے طور پر ہندوستان کو اپنا ملک قرار دے سکتے ہیں اور حساس اداروں کواس پر زیادہ پریشان اورفکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ دیس اور وطن کے اس فرق کو ان کی دوعملی یا شہریتوں کے تصادم کے الزام کی زد میں نہیں لانا چاہئے مگر لایا بھی جاسکتا ہے اور حساس اداروں اور امن اور امان قائم رکھنے کے ذمہ دار محکموں کے کچھ لوگوں کا شاید یہی فرض بھی ہوتا ہوگا۔معاف کیجئے کہ میں ہزار کوشش کے باوجود انتہائی مشکل موضوع کے اندر داخل ہوتا جارہا ہوں۔ گلزار صاحب کے اپنے آبائی علاقے کو دیکھ کر جذباتی ہوجانے اور جذباتی ہو کر کراچی کی بجائے بمبئی چلے جانے کے واقعہ سے مجھے کچھ اور واقعات یاد آ رہے ہیں۔ بہت سالوں بلکہ عشروں کی بات ہے کہ بابانانک کے جنم دن کی ایک تقریب میں شرکت کے لئے امرتسر سے پنجابی کے ایک مشہور شاعر ایشر سنگھ راولپنڈی آئے تھے اور راولپنڈی کے پنجابی شاعروں نے ان کے اعزاز میں راولپنڈی کے ترنکاری دربارمیں ایک مشاعرہ کرایا تھا جس میں سردار ایشر سنگھ نے جذباتی ہو کر راولپنڈی کے راجہ بازار کا مقابلہ دہلی کے چاندنی چوک سے کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ :
تیرے چاندنی چوک نوں وار سٹاں
میں پیارے جہے راجہ بازار اُتوں
اور پاکستان سے واپسی پر ہندوستان کے دفتر خارجہ نے ان کاپاسپورٹ ضبط کرلیا تھا۔سردار ایشر سنگھ ایشر کے اعزاز میں ایک پنجابی مشاعرہ کے بعد ایک پنجابی مشاعرہ غالباً 1955 میں پنجابی کے مشہور ہندوستانی شاعر درشن سنگھ آوارہ کے اعزاز میں بھی کرایا گیا تھا جس میں درشن سنگھ آوارہ نے ”وطناں دی مٹی“ کی شان میں ایک ایسی نظم پڑھی تھی کہ ان کا پاسپورٹ بھی بحق سرکار ضبط ہو گیا اور وہ پانچ سال تک پاکستان نہ آسکے۔ 1960 میں پاکستان آئے اور پھر ایک ایسی ہی جذباتی نظم پڑھی اور پاسپورٹ ضبط کروا لیا۔ بہت سالوں بعد سردار درشن سنگھ آوارہ، ماسٹرتارا سنگھ جی اور ان کی بیٹی کے ساتھ پاکستان آنے میں کامیاب ہوئے تو اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور بھٹو صاحب کی وفاقی کابینہ میں ہمارے دوست ملک جعفر مرحو م وزیر اقلیتی امور تھے۔سب کی خواہش ہوئی کہ اس موقع پر پنجابی مشاعرہ کروایا جائے مگر ماسٹر تاراسنگھ نے کہا کہ مشاعرہ بے شک کرواؤ مگر درشن سنگھ آوارہ سے کچھ پڑھنے کو نہ کہو کیونکہ میں نے بڑی مشکل سے ان کا پاسپور ٹ ”ری نیو“ کروایا ہے۔ ہم نے اصرار کیا تو ماسٹر جی نے کہا کہ اگر درشن سنگھ نے اپنا کلام سناناہے تو آپ اسے اچھی طرح سنسر کرلیں ہندوستان کے خلاف کوئی زہر افشانی نہ ہو۔ ہم نے درشن سنگھ کے تمام کلام کا جائزہ لیا مگر ان کی کوئی بھی نظم ایسی نہیں تھی کہ جو پاکستان میں پڑھی جائے اور ہندوستان کے حکمران برداشت کرلیں۔ آخر ایک نظم مل ہی گئی جو ”بابانانک“ کے عنوان سے تھی اور خالص مذہبی رنگ میں تھی:
تیری اُچی شان پنجے والیا
میں تیرے توں قربان پنجے والیا
توں تے میری جان پنجے والیا
درشن سنگھ آوارہ پر پابندی لگائی گئی کہ وہ اس نظم کے صرف آٹھ شعر پڑھیں گے۔ وہ بڑی مشکل سے راضی ہوئے مگر جب پڑھنے لگے تو آٹھویں شعر پر بھی نہ رکے اور سٹیج پر ملک جعفر اور ماسٹر تارا سنگھ کی مشترکہ زیرصدارت نظم کا نواں شعربھی سنا دیا کہ:
بھیج کے سانوں توں ہندوستان پنجے والیا
آپ مَل بیٹھا ایں پاکستان پنجے والا
اور یہ درشن سنگھ آوارہ کی زندگی کا آخری مشاعرہ تھا۔ اگلے سال وہ فوت ہوگئے