گورونانک کی کرپا اور کرتارپور راہداری

November 10, 2019

گورونانک دیوجی کے 550 ویں جنم دن کے موقع پر بھولا بسرا کرتارپور پوری آب و تاب کے ساتھ پوری سکھ برادری کے لیے اُن کا ویٹی کن بن کے اُبھرا ہے۔

اس نیک کام کے دو سیوکوںآرمی چیف جنرل باجوہ اور نجوت سنگھ سدھو نے جو پیمان عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں باندھا تھا اُس کا پہلا مرحلہ کمالِ ہنر و فن اور سبک رفتاری سے اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔

جس میں مرکزی مقام گردوارہ دربار صاحب کی بحالی اور اس کی عظیم الشان توسیع کی جا چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسی پہلی راہداری (کرتارپور) کا معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت یاتریوں کو گورداسپور کے ڈیرہ بابا نانک سے گردوارہ دربار صاحب تک بغیر ویزہ کے رسائی مل گئی ہے۔

72 برس کے بعد سکھوں کو سکھ مت کے بانی گورو پورب بابا نانک کی آخری قیام گاہ کے درشن نصیب ہوں گے۔ گورونانک پیدا تو تلونڈی (موجودہ ننکانہ صاحب) میں ہوئے تھے، لیکن اُن کا مستقل بسیرا کرتارپور میںہوا۔

جب 1920میںگوردوارہ دربار صاحب سیلاب کی نذر ہو گیا تو کیپٹن امریندر سنگھ کے دادا پٹیالہ کے مہاراجہ بھویندر سنگھ نے اس کی تعمیر نو کی تھی اور برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ساتھ جب پنجاب تقسیم ہوا اور گورداسپور ریڈکلف کی ریڈلائن کی نذر ہو گیا تو سکھوںکی رسائی اپنے مرشد کی آخری آرامگاہ تک ختم ہو کے رہ گئی۔

گورونانک پیدا تو ایک ہندو گھرانے میںہوئے تھے لیکن وحدانیت، ویدانت، سریت اور وحدت الوجود کی جانب راغب ہو گئے۔ وہ کبیر اور بابا فرید شکر گنج کی طرحسریت، ویدانت اور بھگتی لہر اور صوفیا کے تصورات اور عرفان سے بہت متاثر ہوئے۔

تصوف کے ماخذوںمیں بھی بدھ مت اور ویدانت کے اثرات شامل ہیں۔ گرونانک انسانی بھائی چارے، انسانی خدمت، رواداری، فقر اور زُہد کے قائل تھے اور استحصال کے خلاف۔ گروگرنتھ صاحب میںجو رہنما اُصول بیان کیے گئے ہیں اُن میں پہلے اُصول ’’نام جپنا‘‘ کا مطلب ہے ’’نہیںہے کوئی معبود سوائے اللّٰہ کے‘‘ اور سکھوںکا رب بھی مسلمانوںکے رب کی طرحایک ہے، جو صوفیا کے فلسفۂوحدت الوجود کی طرحکثرت میںوحدت کا مظہر ہے اور جو نرگن (Without Form) ہے۔

دوسرا اُصول ’’ونڈچکو‘‘ یعنی مل کے کھائو یا اشتراک کرو اور تیسرا اُصول ’’کرت کرو‘‘ جو استحصال، مایا اور منمکھ (ذاتی مفاد اور نجی ملکیت کے خلاف) کے بجائے گرمکھ یعنی گرو کی راہ میںساری لوکائی کی خدمت۔ گورو نانک ذات پات اور رنگ و نسل کی تقسیم کے خلاف تھے اور سارے وحدانی مذاہب کی سچائی کو مانتے ہوئے مذہبی بنیادوں پر انسانوںکی تقسیم کے خلاف تھے۔ سکھوںکی علیحدہ شناخت کے چار کاف دسویںاور آخری گرو نے 1699میںلازمی قرار دیئے۔

جب یہ سطور شائع ہوں گی تو وزیراعظم عمران خان اس راہداری کا باقاعدہ افتتاحکر چکے ہوں گے جبکہ بھارت کی سپریم کورٹ بابری مسجد کے ڈھیر پر رام جنم بھومی کیس کا فیصلہ سنا چکی ہوگی۔ پاکستان میںکشمیریوںپہ 95 روز سے جاری اجتماعی نظربندی یا غیرانسانی کرفیو کے حوالے سے کرتارپور کی راہدار کھولنے کے وقت پر بےجا اعتراض ہو رہے ہیں حالانکہ اس کا اعلان سال بھر پہلے ہوا تھا اور اس کے وقت کا تعین گورونانک کے 550ویں جنم دن کے موقع کی مناسبت سے کیا گیا تھا۔

کسی کو خبر نہ تھی کہ مودی حکومت انتخابات کے موقع پر اتنی کشیدگی بڑھا دے گی اور بعد ازاں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کر دے گی۔ بھارت میں اور دُنیا بھر میں جہاں سکھ مت کے پیروکاروں میںپاکستان کے اس احسن اقدام کی بے انتہا توصیف کی جا رہی ہے وہاں بھارت میں ہندوتوا کے زیرِ اثر ڈیپ اسٹیٹ سلامتی کے حوالے سے گہرے خدشات کا اظہار کر رہی ہے۔

درحقیقت پاک بھارت مناقشہ اتنا گہرا ہے کہ کسی بھی اعتماد سازی، لوگوں میںمیل ملاپ اور بین المذہبی رواداری کے اقدام پر سلامتی کے شک و شبہے کے سائے منڈلاتے رہیں گے۔

مجھے یاد ہے کہ سافما (SAFMA)کے پلیٹ فارم سے جب ہم کشمیر گئے تھے اور وہاں سے صحافی آزاد کشمیر آئے تو اس پر گہرے شک و شبہ کا اظہار کیا گیا تھا لیکن اُس کے نتیجے میں منقسم کشمیر کے مابین نہ صرف کشمیریوںکی آمد و رفت بلکہ تجارت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اسی طرح جب ہم نے پنجاب پنجاب عوامی تبادلوںکا سلسلہ شروع کیا تھا تو دہلی میں اُس پر کافی ہچکچاہٹ دکھائی دی تھی۔

انہی تبادلوںکے دوران زیرو لائن پر ایک بڑے امن پارک کی تجویز بھی دی گئی تھی۔ اس پیس پارک کی تجویز میںبغیر پاسپورٹ اور ویزا کے عوامی میل ملاپکی گنجائش رکھی گئی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر اس طرف وزیراعلیٰشہباز شریف ہوںیا وزیرِاعلیٰپرویز الٰہی، نواز شریف ہوںیا چوہدری شجاعت حسین، پنجاب پنجاب تعاون کے لیے پُرجوش تھے۔ وہاںاُس طرف چیف منسٹر کیپٹن امریندر سنگھ (کانگریس) اور چیف منسٹر پرکاش سنگھ بادل (اکالی دل + بی جے پی) خاصی گرمجوشی کا اظہار کر رہے تھے۔

آج جب مولانا فضل الرحمٰن کرتارپور راہداری پہ اعتراض کر رہے ہیںتو مَیںاُنہیںاُن کی مولانا ڈپلومیسی کی عمدہ کوشش کا واقعہ یاد دلانا چاہوں گا۔ مَیںبھی اُس دورے میںاُن کے ساتھ دہلی میںشامل ہوا تھا اور اُنہوںنے وشوا ہندو پریشد اور بھارتی جنتا پارٹی کے ساتھ ہونے والے اجلاسوں میں نہ صرف پاکستان کے ساتھ امن بلکہ بھارت میں مسلمانوں اور ہندوئوںکے مابین بقائے باہم کے لیے بڑی پیش رفت کی تھی۔

اب بھی میں یہ کہوں گا کہ کشمیر کے معاملے پر جمہوری حقوق اور حقِ خودارادیت کے سوال پر اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اور اس کے پُرامن حل کی جستجو میںاگر کوئی مثبت اقدامات کے مواقع ملتے ہیںتو انہیںکیوںگنوایا جائے۔ آخر برصغیر کب تک علاقائی مناقشوں کا یرغمال بنا رہے گا۔