بھارت میں سیکولر ازم کی موت

November 14, 2019

تحریر: بیلی کونسلر حنیف راجہ۔۔۔ گلاسکو
بابری مسجد کا انہدام اور پھر اس پر عدالتوں نے جو فیصلے دیئے ہیں وہ بھارت میں سیکولر ازم کا بھی انہدام ہے اور مسلمانوں ودیگر اقلیتوں کے لئے خفیہ پیغام ہے کہ ہندوستان ہندوئوں کا ملک ہے اور جہاں نیچے سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک کسی انصاف کی امید نہ رکھیں۔ جتنی دیر فیصلے میں لگی، نتیجہ اس سے بھی بدتر نکلا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلے سے عملی طور پر مودی اور انتہا پسند ہندوئوں کی مدد کی ہے جو بابری مسجد کے بعد متھرا اور کاشی کی مسجد کے علاوہ دیگر سینکڑوں مساجد کے متعلق دعوے کر رہے ہیں کہ ان کو مندر گرا کر بنایا گیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بنچ جس کی صدارت چیف جسٹس خود کر رہے تھے اس انتہائی اہم مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے بابری مسجد کی تمام زمین ہندوئوں کو دیدی ہے اور مسلمانوں کو لالی پاپ دیتے ہوئے اداروں سے کہا ہے کہ ان کو متبادل کے طور پر 5ایکڑ جگہ دی جائے، جہاں پر وہ مسجد تعمیر کر سکیں۔ متفقہ طور پر کئے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ متنازع زمین پر ہندوئوں کا دعویٰ جائز ہے۔ حالانکہ آثار قدیمہ کے ماہرین کی رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ بابری مسجد کے نیچے سے کھنڈرات کے شواہد ملے ہیں۔ کھنڈرات تو کسی بھی چیز کے ہو سکتے ہیں۔ یہ فرض کر لیا گیا کہ یہ رام مندر کے تھے۔ بابری مسجد کے متعلق الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سنی وقف بورڈ نے جو اپیل دائر کر رکھی تھی سپریم کورٹ سے اسے مسترد کئے جانے پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو شدید رنج پہنچا ہے۔ یہ چند ایکڑ زمین کا مسئلہ نہیں تھا یہ عقیدے کا مسئلہ تھا جس کی بنا پر کئی ہزار افراد نے اپنی جانیں دی تھیں۔ اگرچہ بھارتی سپریم کورٹ کا ماضی کا ریکارڈ بھی کوئی اتنا تابناک نہیں اس کے باوجود عمومی رائے یہ تھی کہ زمین فریقین میں آدھی آدھی بانٹ دی جائے گی۔ تقریباً 5سو سال تک مسجد کی حیثیت سے رہنے والی اس عمارت کو بھارتی انتہا پسند ہندو قیادت مندر قرار دیتی رہی اور اس کی آڑ میں اپنی سیاست کی دکان چلاتے رہے ہیں اور 6دسمبر 1992کو اسے ایک سازش کے تحت شہید کر دیا۔ یہ تحریک کرشن لال ایڈوانی نے شروع کی تھی جس کے چند سالوں بعدہی آر ایس ایس کےجنونی ہندوئوں نے مسجد پر ہلہ بول دیا تھا۔ بھارت میں گائے ذبح کرنے پر بے شمار مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے اور وہ خوف وہراس میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ ایک ایسے وقت میں سنایا ہے جب مسلمانوں کا ایک اہم تہوار آرہا تھا کیا اس سے مسلمانوں میں اشتعال دلانا مقصود تھا تاکہ وہ اس پر اپنا سخت ری ایکشن دیں اور ان کو دہشت گرد قرار دیکر پروپیگنڈہ کیا جا سکے۔ پاکستان نے تو بھارت کے بالکل برعکس کرتار پور راہداری کھول کر سکھوں اور دوسری اقلیتوں کو ایک ایسی سہولت دی ہے جو سکھوں کا خواب تھا۔ وزیراعظم کے اس منصوبے کا مقصد اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن وپیار ومحبت کا پیغام تھا۔ بین الامذاہب میں ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ جبکہ بھارتی عدالتی فیصلے سے ایک بالکل منفی تاثر ابھرا ہے۔ آل انڈیا مسلم لا بورڈ نے بھی فیصلے پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار کیا ے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ یہ حقائق کی نہیں بلکہ ایک عقیدے کے جیت ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت جو مودی کی قیادت میں پہلے ہی انتہا پسندی کی راہ پر گامزن تھا اب سپریم کورٹ کے فیصلے سے اس ان لوگوں کو تقویت ملی ہے جو کہ تیزی سے ایک مہاسبھائی ریاست کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن یہ راستہ بالآخر خود بھارت کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو گا۔