تبدیلی کا مرحلہ اور انسانی ہمدردی

November 17, 2019

ملک پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہے، بیرونی قرضوں کے انبار لگے ہوئے ہیں، نئے آنے والے حکمرانوں کو ملک و قوم کو سہولت پہنچانے، ملک چلانے کیلئے مجبوراً مزید قرضے لینا پڑ رہے ہیں، قرضے اس لیے تو نہیں لئے جا رہے کہ نئے آنے والوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ضرورت ہے، بیرونی قرضہ یونہی تو نہیں مل جاتا، ہزاروں شرائط ماننا پڑتی ہیں، اسی سبب مہنگائی ہو رہی ہے ورنہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے، قوم کو قربانی تو دینا پڑتی ہے، کچھ ہی دنوں کی بات ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا، بس تھوڑی برداشت اور صبر کی ضرورت ہے۔

حزبِ اختلاف جانے حکومت سے کیا چاہ رہی ہے، برسر اقتدار جماعت منتخب ہو کر آئی ہے، عوام کے ووٹ لیکر آئی ہے، کوئی آسمان سے تو ٹپکی نہیں جسے دیکھو وہ حکومت اور حکمرانوں کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے۔ مہنگائی اپنے آپ تو نہیں ہو گئی، اب اگر کوئی شے آپ کو مہنگی لگ رہی ہے تو مت خریدو، کون کہتا ہے آپ مہنگی چیز ضرور خریدو جب آپ مہنگی چیز نہیں خریدو گے تو وہ چیز خود بخود سستی ہو جائے گی۔ پھر قوم یہ کیوں نہیں سوچتی کہ ہر نئے آنے والے حکمران کو اپنے سے پہلے والوں کی پھیلائی گندگی صاف کرنے میں محنت مشقت کرنا پڑتی ہے، ہتھیلی پر تو سرسوں جمنے سے رہا۔ اقتدار یوں تو حاصل نہیں ہوا، کئی دروں پر سجدہ ریزی کرنا پڑتی ہے، لانے والوں کی شرائط تسلیم کرنا پڑتی ہیں، اپنی من مانی سے تو اقتدار نہیں مل جاتا، کافی سرمایہ لگانا پڑتا ہے، اس لیے ہی سرمایہ کار وزرا کی ایک فوج ظفر موج، موج مارنے کے لیے جمع کرنا پڑتی ہے، آخر دوستوں، مشیروں، وزیروں کا بھی تو حکومت پر کوئی حق ہے کہ نہیں؟ ابھی مہنگائی، بیروزگاری، غربت کا رونا تھما نہ تھا کہ ایک نئی مشکل کھڑی کر دی گئی۔ حزبِ اختلاف کو کسی طرح چین نہیں پڑتا، میاں نواز شریف جو جیل میں اپنے کردہ ناکردہ کرموں کی سزا بھگت رہے تھے، کو بیماری نے آن گھیرا۔ بیماری بھی ایسی کہ زندگی دائو پر لگ گئی، اس پر بھی حکومت قصوروار ٹھہرائی جا رہی ہے۔ حکومت نے تو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر، وہ بھی صرف ساڑھے سات ارب روپوں کے معمولی ضمانتی بانڈز پر چار ہفتے کی طویل ترین مہلت وہ بھی انسانی ہمدردی کے ساتھ، اگر نواز شریف کو زندگی پیاری ہے تو حکومت سے صرف ساڑھے سات ارب روپوں میں چار ہفتے کی مہلت خرید سکتے ہیں۔ اگر نواز شریف چار ہفتے میں تندرست نہیں ہوتے تو انہیں عدالت سے ملنے والی مہلت میں اضافے کی درخواست کرنا ہوگی ورنہ اُن کی عدالتی ضمانت ختم ہو جائے گی۔ اگر ملنے والی مہلت میں رعایت نہ دی گئی اور میاں صاحب حاضر نہ ہو سکیں تو وہ مفرور قرار دئیے جا سکتے ہیں، واپس نہ آنے کی صورت میں حکومت کو اختیار ہوگا کہ وہ ساڑھے سات ارب کی معمولی رقم کے عوض خریدی گئی مہلت کے بانڈ کیش کرا لے، ان کی منقولہ، غیر منقولہ جائیداد کو سرکاری قبضےمیں لے لیا جائے۔ یوں آسانی سے شریف خاندان کو سیاست سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا جا سکے گا۔ وہ نہ پاکستان آئیں، نہ سیاست میں کسی طرح حصہ لیں۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میاں نواز شریف کو روکنے کے پیچھے کوئی بڑی حکمت عملی کار فرما ہے۔ نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی۔ شریف فیملی یا پاکستان مسلم لیگ اتنی بڑی رقم ادا کرنے پر تیار نہ ہوگی تو اس طرح میاں نواز شریف کی بیماری بڑھنے کا یا کسی حادثے کی صورت میں سارا ملبہ خود شریف فیملی پر گرے گا۔ حکومت تو آرام سے یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر دے گی کہ ہم نے تو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اجازت دے دی تھی، اب اگر نواز شریف نہیں گئے تو اس میں ہمارا تو کوئی دوش نہیں۔

دراصل پس پردہ جو بھی کچھ ہو رہا ہے، وہ حزب اختلاف سے کسی قیمت پر سودے بازی اور حکومت کا دبائو ڈالنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں معلوم ہو رہا، کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی گیارہ روز کے بعد اپنے دھرنے کا رخ تبدیل کرکے مزاحمت کی راہ اختیار کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے، اس طرح حکومت پر دبائو پڑے نہ پڑے لیکن عوام کا جو حشر نشر ہوگا، اُس کا کسی کو احساس نہیں۔ تمام اہم سڑکیں بند کر دی جائیں گی تو لازماً انتظامیہ سے سامنا ہوگا، ٹکرائو بھی ہو سکتا ہے، پھر جو ہو گا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ یہ سب کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ کوئی تو ہے جو یہ سب کچھ چلا رہا ہے۔ عوام بے چارے حیرانی سے سارا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ حکومت رہتی ہے یا جاتی ہے، میاں نواز شریف تندرست ہوتے ہیں یا نہیں، مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ پھر دھرنا اور اب سڑکوں پر دھرنا، یہ سارا کھیل کامیاب ہوتا ہے یا نہیں، تبدیلی کا یہ مرحلہ کس سمت اور کس کروٹ بیٹھے گا، اللہ ہی جانے کیا ہونے والا ہے۔ اللہ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے، ہر آفت، مصیبت سے اسے محفوظ رکھے۔ آمین!