ہسپتالوں میںشدید الرجی میں مبتلا بچوں کے داخلوں میں 72 فیصد اضافہ

November 17, 2019

لندن (پی اے) ہسپتالوں میں شدید الرجی میں مبتلا بچوں کےداخلوں میں گزشتہ پانچ سال میں 72 فیصد اضافہ ہوگیا۔ الرجی میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہونے والی نتاشا عدنان لیپروس کے والدین کی جانب سے قائم کی گئی فائونڈیشن کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 18 سال اور کم عمر بچوں میں زود حسی کے جھٹکوں کے کیسز میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پی اے نیوز کو ملنے والے این ایچ ایس ڈیجیٹل اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2018/19 میں زود حسی کے جھٹکوں کے باعث ہسپتالوں میں داخل ہونے والے بچوں کے 1746 کیسز ریکارڈ کئے گئے جبکہ 2013/14 میں ان کی تعداد 1015 تھی جو کہ72 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ اگر اس تعداد میں بالغان کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ اضافہ 34 فیصد بنتا ہے، جن کی تعداد 4107 سے بڑھ کر 5497 ہو گئی۔ نتاشا کی موت 2016 میں 15 سال کی عمر میں بیگیوٹ کھانے کے بعد شدید الرجی کے باعث ہوئی تھی۔ اس پروڈکٹ میں تل کے بیج شامل تھے، جس سے نتاشا کو الرجی تھی مگر پروڈکٹ کے لیبل پر تل کی آمیزش کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا۔ اس کے والدین نے فوڈ لیبلنگ کے قانون میں تبدیلی کے لئے ایک ملک گیر کمپین شرو ع کی تاکہ کوئی اور بچہ الرجی میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں نہ جائے، اس کے نتیجے میں حکومت نے اعلان کیا کہ ’’نتاشا لا‘‘ پر 2021 سے عمل درآمد کیا جائے گا۔ اس قانون کے نفاذ سے یہ لازمی ہو جائے گا کہ فوڈ کی پیکنگ سے قبل اس کے لیبل پر ان تمام اشیا کی تفصیلات شائع کی جائیں جو اس پروڈکٹ میں شامل ہیں۔ الرجی کے باعث سب سے متاثرہ ریجن لندن ہے، جہاں ہسپتالوں میں الرجی کے باعث داخل ہونے والوں کی تعداد میں اس عرصہ کے دوران 167 فیصد اضافہ ہوا ہے، جہاں 2013/214 میں تعداد 180 تھی جو کہ2018/19میں بڑھ کر 480 ہوگئی۔ 10 سال یا کم عمر بچوں میں یہ اضافہ 200فیصد ہوا ہے، جہاں الرجی کے باعث ہسپتالوں میں داخلوں کی تعداد 110 سے بڑھ کر 330 ہو گئی۔