ایک دن کتابوں کے ساتھ

February 23, 2013

کتابیں تو میں نے سات ہی خریدیں چار اپنے لئے، ایک بیٹے کی فرمائش پر اور دو نصف بہتر کو پسند آ گئیں، مگر ایکسپو سنٹر جوہر ٹاؤن میں کتاب میلہ پر شہرکے ہردلعزیز ریستوران یا مقبول بھارتی فلم کی نمائش کے پہلے روز کی طرح رش دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔ ہر سٹال پر ہجوم، راہداریوں میں کھوے سے کھوا چھلنے کا سماں اور اردو، عربی، فارسی، ہندی، انگریزی زبان میں نو بہ نو کتابوں کا ڈھیر، ہر سٹال قابل دید اور ہر کتاب قابل مطالعہ، کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا است۔
اتوار کے دن گھر سے نکلے تو ہرگز اندازہ نہ تھا کہ ایکسپو سنٹر میں ہزاروں کی تعداد میں خلق خدا سے واسطہ پڑے گا اور پارکنگ مسئلہ بن جائے گی، لاہور اگرچہ اب لاہوریوں کا نہیں، ملک بھر کے لوگ اس کشادہ ظرف شہر میں رچ بس چکے ہیں مگر عادتیں سب کی لاہوریوں والی ہیں، اتوار کے روز دیر سے اٹھنا، مرغ چنے، حلوہ پوڑی، سری پائے، لسی پیڑے سے ناشتہ کرنا، دن بھر پارکوں میں گھومنا پھرنا، چڑیا گھر کی سیر کرنا اور رشتے داروں سے مل ملا کر شام کو تھکے ماندے گھر لوٹنا اکثریت کا شیوہ ہے مگر اس روز ایکسپو سنٹر میں داخل ہوا تو یوں لگا جیسے ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین، بچے، جوان بوڑھے کتابوں سے ملنے اور لفظ و معانی سے ہم کلام ہونے ادھر آ نکلے ہیں۔
لاہور کھانوں اور کھیل تماشوں کا مرکز ہمیشہ سے تھا، دہشت گردی اور بدامنی نے کھیل تماشے محدود کر دیئے کرکٹ کے میدان اجڑ گئے بسنت کو تندی والی تار اور فائرنگ کے ذریعے نودولتیوں نے موت کا کھیل بنا دیا اس لئے دیسی اور ولایتی کھانوں کے مرکز آباد ہوئے اور ہوتے ہی چلے گئے، گزشتہ تین دہائیوں سے حکمرانوں نے بھی اس کاروبار کی حوصلہ افزائی کی یا پھر کئی منزلہ بے ڈھنگی بلڈنگوں، انڈر پاسز، فلائی اوورز اور جہازی سائز سڑکوں کی تعمیر پر توجہ مبذول رکھی، سنگ و خشت کے جہان نو پیدا کرنے کی اس دوڑ میں علم و ادب کے مراکز، لائبریریاں، کتاب گھر نظرانداز ہوئے اور بالآخر اجڑ گئے۔ صوبائی دارالحکومت میں گزشتہ تیس سال کے دوران ایک بھی نئی پبلک لائبریری نہیں کھلی، الٹا نیشنل سنٹر کی لائبریری بند ہو گئی، امریکن سنٹر اور برٹش کونسل کی لائبریریوں میں داخلہ مشکل ہو گیا اور لوہاری، انارکلی، شارع قائداعظم، اردو بازار اور لوئر مال پر واقع نجی کتاب گھروں کی چمک دمک بھی ماند پڑ گئی۔ ان میں سے بیشتر محض کتابوں کی خرید و فروخت کے مرکز نہ تھے یہاں اہل علم کی محفلیں سجتی تھیں اور طالب علم فیض کے ان سرچشموں سے اپنی پیاس بجھاتے۔
جب میری عمر کے لوگ لاہور میں وارد ہوئے تو ابوالاثر حفیظ جالندھری، فیض احمد فیض، ایم اسلم، احسان دانش، اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی، صوفی غلام مصطفی تبسم، ظہیر کاشمیری اور کئی دیگر مشاہیر سے اول اول انہی محفلوں میں ملاقات ہوئی اور خوشہ چینی کا موقع ملا۔ انارکلی میں ہفتہ وار تعطیل کے روز پرانی کتابوں کے سٹال لگتے تو شائقین صبح ہی صبح اچھے مال کی تلاش میں پہنچ جاتے اور عموماً کامیاب لوٹتے، احسان دانش مرحوم اس شخص کو پڑھا لکھا ہی نہیں مانتے تھے جو مہینے میں دو تین بار پرانی کتابوں کی تلاش میں انارکلی نہیں جاتا، مری طرح کے بہت سے لوگ اپنے آپ کو پڑھا لکھا ثابت کرنے کے لئے پرانی کتابوں کی تلاش میں نکلے اور ایک عمر اس کوچے کی خاک چھانتے گزر گئی۔ میں نے حضرت علامہ اقبال کی کتاب ری کنسٹرکشن آف اسلامک تھاٹس، دیوان سنگھ مفتون کی ناقابل فراموش اور فیلڈ مارشل کی فرینڈز ناٹ ماسٹرز انہی تھڑا سٹالز سے لی۔
ٹی وی، انٹرنیٹ، موبائل اور دیگر ایجادات نے نوجوان نسل کا ناطہ کتاب سے ضرور توڑا، محلہ لائبریریوں کا رواج ختم ہوا ان کی جگہ سی ڈی، ڈی وی ڈی سنٹر قائم ہوئے، جگہ جگہ کھلنے والے ریستورانوں اور جنک فوڈ کی ہوم ڈلیوری نے بھی عادتیں خراب کیں، مگر کچھ قصور ہمارے پبلشرز کا بھی ہے جو کتابوں کی قیمتیں، بالائی کلاس کو ذہن میں رکھ کر مقرر اور مصنفین کو رائیلٹی نہ دینے کی نیت سے پانچویں ایڈیشن کو بھی پہلا ایڈیشن ہی ظاہر کرتے ہیں۔ غیر معیاری کتابوں کی اشاعت چونکہ عموماً مصنف کے خرچ پر ہوتی ہے، اس لئے بہت سے ناشر اسی پر اکتفا کرتے ہیں، پیپر بیک کتابیں چھاپنے کا رواج نہیں، سید قاسم محمود مرحوم نے سستی شاہکار کتابوں کے ذریعے مطالعے کا شوق پیدا کیا، اس سے پہلے محمد حنیف رامے مرحوم کے بھائی چوہدری رشید احمد بھی یہ کام کرتے رہے مگر اب کوئی سید قاسم محمود مرحوم کے نقش قدم پر چلنے کو تیار نہیں کہ۔ لگتی ہے اس میں محنت زیادہ۔
اس کے باوجود ایکسپو سنٹر کے کتاب میلے میں کتابوں کی ورق گردانی، چھان پھٹک اور خریداری میں بلامبالغہ ہزاروں افراد بالخصوص نوجوانوں کو دیکھ کر اطمینان ہوا کہ پاکستان میں کتاب بینی کا شوق کم ہوا ہے ختم نہیں، یہاں ایسی کتابیں دستیاب تھیں جن میں سے ہر ایک لاکھ لاکھ کی تعداد میں فروخت ہو چکی ہے سرفہرست مذہبی کتابیں ہیں مگر ناول، آپ بیتی، افسانہ، سفرنامہ بھی اس دوڑ میں شامل ہے۔ برادرم رؤف طاہر، تنویر شہزاد اور اجمل شاہ دین یہاں ملے اور لوگوں کی دلچسپی کا ذکر خوشگوار حیرت اور انبساط و مسرت سے کیا۔ ارادہ تھا آخری روز پھر چکر لگاؤں گا، حال ہی میں مارکیٹ ہونے والی دو تین کتابیں خرید اور پڑھ نہیں سکا، لینے کا ارادہ تھا مگر دیگر مصروفیات آڑے آئیں اور کتاب میلہ والوں نے دکان بڑھا لی، روئے گل سیر ندیدم و بہار آخر شد۔
اخبارات میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ایک نجی ہاؤسنگ سکیم میں پلاٹ خریدنے والوں کے لئے قدم آدم اشتہارات شائع کرائے ہیں کہ یہ ایل ڈی اے سے منظور شدہ نہیں، یہ سکیم کئی سال قبل شروع ہوئی، ہزاروں کی تعداد میں لوگ یہاں اربوں روپے کی انویسٹمنٹ کر چکے ہیں مگر ایل ڈی اے کو وارننگ جاری کرنے کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب صدر آصف علی زرداری نے یہاں اپنا عالیشان محل تعمیر کرکے ڈیرے ڈالے، یہ بلاول ہاؤس بسانے کی سزا ہو گی۔ مگر زیادتی یہ اس ٹاؤن کے تمام رہائشیوں اور سرمایہ کاری کرنے والوں کے ساتھ ہے، میاں شہباز شریف اس کا نوٹس لیں۔