الٹی گنگا…

November 18, 2019

گل دخار…سیمسن جاوید
گاندھی جی کا قول ہے کہ اگرآپ تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ chain(زنجیر) بنیں۔ مگرجہاں صورت مختلف ہووہاں چین بننا آسان کام نہیں ہوتا۔ 72 سال گزر جانے کے باجود بھی جس قوم کی فطرت میں رتی بھرفرق نہ آیا ہو اور آج بھی جو ٹرک کی لائٹوں کے پیچھے بھاگنے کے عادی ہوں۔وہ ہر آنے والی قوت کو موسیٰ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ چاہے وہ فوج ہو،ملا ہو یا سونامی یا دھرنا۔اسی خام خیالی اور غلط فیصلوں سے ملک اورعوام کی معاشی حالت دن بدن بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ تمام کوششوں کے باوجود ملک بہتری کی طرف گامزن نہیں ہوپا رہا بلکہ پوری قوم معاشی بد حالی، بداخلاقی ،سماجی ومعاشرتی برائیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستی چلی جا ری ہے۔ پھر وہ کمیونٹی کیسے چین بنائے گی جس پر یہ شعر صادر آتا ہے ۔کہ ’’خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا ‘‘جس کمیونٹی میں سب چوہدری اورلیڈرہوں وہ ٹرین کاایک ایسا انجن ہے جس کے پیچھے بوگیاں نہ ہوں۔ ان کا اپناکوئی مائنڈ سیٹ یاروڈ میپ نہیں اور نہ ہی انہیں اپنی منزل ِ مقصود کا کچھ اتا پتا ہے۔ اس کی عوام سہاروں کی اورلیڈر ٹرک کی لائٹوں کے پیچھے بھاگنے کے عادی ہوں۔ انہیں اپنا نام اور اپنا ریفرنس سب سے اوپر چاہئے۔ وہ دوسروں سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ انہیں سب سے اعلیٰ مسند پر بیٹھایا جائے۔ اور وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان جیسا قابل کوئی اور ہے ہی نہیں۔ بغیر بوگیوں والا یہ انجن تن تنہا سیٹیاں بجاتا ہوابے مقصد رواں دواں رہے تو وہ سوائے اپنا ایندھن اور وقت ضائع کرنے کچھ نہیں کرتا۔انہی عادات کی وجہ سے لوگوں نے اس بے محار کمیونٹی کے بارے میں بہت سی کہاوتیں گڑ رکھی ہیں ۔ ان حالات میں کیسے چین بن سکتی ہے اور کون چین بنائے گا۔مجھے2008 کی بلوچستان اسمبلی کی مثال یاد آتی ہے۔ جس کے بارے میں نے اخبار میں ایک کالم بھی لکھا تھا ’’جتنے ممبراتنے وزیر‘‘۔ جس پر مجھے کافی مشکلات کا سامناکرنا پڑا۔2008 کے الیکشن میں بلوچستان اسمبلی کے لئے پیپلز پارٹی کے نواب محمد اسلم رئیسانی جو وزیراعلیٰ کیلئے امیدوار تھے ان کے مقابل کوئی نہیں تھاوہ ان اپوزڈ (بلامقابلہ )وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔ لہذا انہوں نے سب کو خوش کرنے کیلئے جتنے صوبائی اسمبلی رکن منتخب ہوئے تھے ان سب کو وزیر یامشیر بنادیا۔ ما سوائے ایک صوبائی رکن یار محمد رندکے جو واحدایک اپوزیشن لیڈر تھا۔ یار محمد رند قومی اتحاد کی ٹکٹ پر منتخب ہوا تھاجس نے بعد میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ بلوچستان کاوہ بدترین دور تھا جس میں عوام کی فلاح وبہبود اور بلوچستان کی تعمیرترقی کے لئے کچھ بھی نہ ہوسکا اور دہشت گردی بھی عروج پر رہی۔ ان حقائق کو جھٹلانا نہیں جا سکتا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں ہمیشہ ہی حکومت کی عدم توجہ کا شکار رہی ہیں۔اس وقت مسیحی کمیونٹی کے دو بڑے ایشوز ہیں پہلا میرج ایکٹ اور تنسیخ نکاح اور دوسرا ایڈورڈز کالج پشاور۔ جس پر حکومت نے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ کرسچن کمیونٹی تومتحرک دکھائی دیتی ہے مگر لیڈرشپ کا وہی کردار ہے کہ ہر کوئی کریڈٹ سمیٹنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔امید ہے کہ سپریم کورٹ یا پھر انصاف کی دعویدار سرکار انصاف ضرور کرے گی۔اور یہ بھی کہ حکومت جو بلا جواز ایڈورڈز کالج پشاور پر قبضہ کرنے سے دستبردار ہو جائے گی۔ مگر وہ ایشوز جس نے مذہبی اقلیتوں کو کسمپرسی میں جھکڑکر رکھا ہوا ہے۔چاہے وہ عوامی ترقیاتی منصوبہ بندی ہو یا ملازمتی منصوبے ہوں، ہر شعبہ ہائے زندگی میں امتیاز نے انہیں معاشی طور پر پست رکھا ہے۔ اس امتیاز نے انہیں احساس کمتری کا شکار بنادیاہوا ہے۔ دارالحکومت اسلام آبادکی کچی بستیوں میں رہنے والے مسیحی جن کی تقریباً 20 ہزار تعداد ہے کے مسائل حکومت نے آج تک حل نہیں کئے۔ جے سالک ان مسیحی کچی آبادیوں اورسینٹری ورکرز کے حقوق اور فلاح کے لئے بلند و بانگ نعرے لگاتے رہے اور الیکشن میں ہمیشہ 100 فیصد ووٹ حاصل کرتے رہے ہیں اور اب بھی کبھی کبھار نمایاں نظر آتے ہیں۔مگر ان کے مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔اس کے علاوہ کئی این جی اووز اور لیڈرز بھی کوشاں دکھائی دیتے ہیں مگر ان کی معاشرتی اور معاشی سٹیٹس کی تبدیلی کے لئے کسی نے بھی کوئی خاص نتیجہ خیز کوشش نہیں کی۔ یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ یہ لوگ خود اپنی حالت بدلنا نہیں چاہتے ۔ کسی قوم کی حالت بدلنے کیلئے 72 سال کم نہیں ہوتے۔72 سال میں بھی ان کے ماتھے پر لگا داغ ختم نہیں ہو سکا ۔جس کی وجہ سے ساری قوم کوذہنی اذیت اٹھانا پڑتی ہے۔ کراچی ،لاہور،فیصل آباد، ملتان ،پشاور یا راولپنڈی اسلام آباد میں مسیحیوں کی بڑی آبادیاں موجود ہیں۔ان علاقوں میں مسیحی آبادی کا تیسرا حصہ آج بھی درجہ چہارم کی نوکریاں کر نے پر مجبور ہے۔ دوسری ملازمتیں نہ ملیں اوررہائشی مشکلات کی وجہ سے وہ لوگ یہ نوکریاں چھوڑنا نہیں چاہتے۔ نہ انہیں سہولتیں میسر ہیں نہ ذہنی بحالی کے کوئی منصوبے۔ یوں ان کی اولاد بھی یہی کام کرنے پر مجبور ہے۔ اور دوسرا المیہ یہ ہے کہ جس خاندان کا کوئی فردپڑھ لکھ کر اچھی پوسٹ پر آجاتا ہے وہ خاندان کے دوسرے افراد کے لئے ترقی کا زینہ نہیں بنتا۔ یعنی چین نہیں بنتا۔ ترقی کے لئے جدوجہد کرنا انسانیت کاشیوا ہے۔ وسائل ہونا بھی ضروری ہے۔ انگریزوں نے غریب کمیونٹی کی ترقی کے لئے کوششیں کی اور ان کے لئے ترقی کے ذرائع بھی چھوڑکر گئے مگر دولت کے پجاری جو خود کو مسیحی قوم کا پاسبان کہتے ہیں انہوں نے بھی اپنی ہی کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا۔ چاہئے یہ تعلیمی ادارے ہیں یا صحت کے شعبے۔وہاں بھی طبقہ بندی کو ترجیح دی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ با وسائل پاسبان مشن کی پراپرٹیز پر مزے کر رہے۔ اور کچھ قیمتی پراپرٹیاں بیچ کر بیرون ملک بھاگ گئے ہیں۔ حالانکہ اس وقت کے حاکم جنرل پرویز مشرف نے یہ قانون بنایا تھا کہ مشن کی پراپرٹی کوئی بیچ نہیں سکے گا۔ مگر یہ سلسلہ کہیں نہیں رکا۔ یو سی ایچ ہسپتال جس کی بحالی کے کوششیں کی جارہی تھیں وہاں شوکت خانم کی صورت میں ایسٹ کمپنی آ چکی ہے۔ خدا خیر کرے اور مسیحی عوام ان کالی بھیڑیوں کا غلبا کیسے ختم کر سکے گی۔ یہی پراپرٹیز مسیحیوں کی رہائشی ومعاشی مسائل دور کرنے کے لئے استعمال میں آتیں تو آج بہت فرق پڑچکا ہوتا۔ مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔