نیشنل گیمز کا انعقاد: پختونخواہ میں امن و استحکام کا اچھا تاثر ابھرا

November 21, 2019

وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ لے کر موجودہ حکومت کو گھر بھجوانے کے لئے شروع کردہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا27اکتوبر کو شروع کردہ آز ادی مارچ اسلام آباد دھرنے کے بعد احتجاج کے پلان بی، صوبوں میں اہم شاہراہوں کی بندش کی شکل میں جاری ہے جبکہ26اکتوبر کو شروع ہونے والے33ویں نیشنل گیمز اپوزیشن آزادی مارچ کے تناظر میں ملتوی کئے جانے کے بعد گیارہ نومبر سے سولہ نومبر تک پشاور، مردان، ایبٹ آباد، چارسدہ اور بعض مخصوص ایونٹس ملک کے بعض دیگر شہروں میں منعقد ہو کر اختتام پذیر ہو چکے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کو ساتویں بار قومی کھیلوں کی میزبانی کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس سے قبل 1998, 1990,1982, 1974, 1958 اور 2010 میں پشاور کو قومی کھیلوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا۔

پشاور، پورے صوبہ خیبر پختونخوا اور سابقہ فاٹا، ضم شدہ قبائلی اضلاع میں دہشت گردی اور تخریب کاری کاجو طویل دور گزرا تھا جس میں2010کے نیشنل گیمز کے موقعہ پر پشاور صدر کے علاقے میں باڑہ روڈ پر قائم قیوم سپورٹس کمپلیکس کے باہر اس وقت کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور، وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین اور وزیر کھیل و سیاحت سید عاقل شاہ کی گاڑیوں کے قریب دھماکہ بھی شامل تھا، جس میں وہ محفوظ رہے تھے البتہ دیگر جانی مالی نقصانات ہوئے تھے۔ کے بعد سے لے کر اب تک نومبر2019میں پشاور میں قومی کھیلوں کا ایک بار پھر شاندار، کامیاب اور پرامن انعقاد یقیناً اہل پشاور اور پوری قوم کے لئے خوشی و مسرت کا مقام ہے۔

نیشنل گیمز کے پرامن انعقاد سے نہ صرف پورے ملک بلکہ بیرون ملک بھی صوبے میں امن و استحکام کے حوالے سے ایک بہت اچھا پیغام گیا ہے اور اس کے لئے پاک فوج، پولیس، انتظامیہ اور نیشنل گیمز کے منتظمین داد و تحسین کے مستحق ہیں اور ان سے بھی زیادہ داد کے مستحق وہ دس ہزار کھلاڑی، ایتھلیٹس اور آفیشنلز ہیں جنہوں نے ان کھیلوں میں تمام تر خدشات کے باوجود شرکت کی تاہم کسی شہر اور صوبے میں ملکی اور قومی سطح کے اتنے بڑے سپورٹس ایونٹس کے انعقاد کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ مقامی لوگوں کو ان میں شریک کر کے لطف اندوز بھی کیا جائے مگر کیا کریں سیکورٹی کے نام پر ایسے انتظامات کا کہ پورا شہر مفلوج ہو کر رہ جائے اور شائقین اپنے اپنے پسنداور دلچسپی کے کھیلوں کو دیکھنے کے لئے سٹیڈیم کے قریب نہ جا سکیں اور صرف ملک بھر سے آنے والے کھلاڑی ہی ایک دوسرے کے گیمز دیکھ کر ایک دوسرے کو داد دیا کریں۔ کہا جانا ہے کہ ایک ہفتہ کے نیشنل گیمز کے انعقاد پر چھبیس کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں جن میں زیادہ تر سیکورٹی کی مد میں خرچ ہوئے ہیں۔

ادھر اس دوران صوبائی اسمبلی کا ایمرجنسی میں طلب کردہ ایک دن کا اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں اضافی ایجنڈا آئٹمز کے طور پر قانون سازی بھی کی گئی اور چھبیس نومبر کو منعقد ہونے والے سینٹ کے ایک خالی نشست کے لئے صوبائی اسمبلی ہال کو بطور پولنگ بوتھ استعمال کر نے کی الیکشن کمیشن کو اجازت دینے سے متعلق قرارداد بھی منظور کی گئی اجلاس میں ضم شدہ قبائلی اضلاع سے خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی دو خواتین ارکان نے حلف بھی لیا۔ ایک ہی روز بل ایوان میں پیش کرنے اور اس وقت زیر غور لا کر منظور کرنے پر اپوزیشن نے بھر پور احتجاج بھی کیا اسمبلی کے اندر سپیکر ڈائس کا بھی گھیرائو کیا اور بعدازاں وزیراعلیٰ ہائوس تک احتجاجی مارچ بھی کیا۔

جہاں تک سینٹ کی خالی نشست کا تعلق ہے یہ پی پی پی کے سینیٹر خان زادہ خان کے استعفیٰ سے خالی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے پارٹی سربراہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری سے اختلاف پیدا ہوئے تھے جس پر انہوں نے سینٹ کی اس نشست سے استعفیٰ دیا۔ خان زادہ خان نہ صرف پارٹی کے پرانے رہنمائوں میں سے ہیں بلکہ آصف علی زرداری نے انہیں پارٹی میں صوبے میں سب سے بڑے اور اہم منصب صوبائی صدر کی حیثیت سے بھی نامزد کیا تھا تاہم قائدانہ صلاحیتوں کی کمی اور غیر معالیت کے باعث انہیں اس اہم منصب سے محروم ہونا پڑا تھا لیکن صوبائی صدر کی حیثیت سے کامیاب نہ ہونے کے باوجود پارٹی قیادت نے انہیں سینٹ کا ٹکٹ دے کر کامیاب کرایا تھا اور وہ سینٹ کے رکن تھے۔

سینٹ کا یہ اہم منصب اپنے گھر میں رکھنے کے لئے خان زادہ خان نے اپنے بیٹے ذیشان خانزادہ کو پی ٹی آئی میں شامل کروایا اور پھر سینٹ سے استعفیٰ دیا جس پر اب چھبیس نومبر کو انتخابات ہو رہے ہیں حکمران پی ٹی آئی نے خان زادہ خان کے صاحبزادے ذیشان خان زادہ کو سینٹ کی اس خالی نشست پر ٹکٹ جاری کرتے ہوئے امیدوار بنایا ہے اور صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی واضح اکثریت ہونے کی وجہ سے وہ بہ آسانی جیت جائیں گے تاہم اے این پی نے سابق صوبائی وزیر حاجی ہدایت اللہ اور پی پی پی نے فرزند علی خان کو امیدوار نامزد کر دیا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا اے این پی کے امیدوار حاجی ہدایت اللہ پر متفقہ امیدوار کی حیثیت سے اتفاق ہو جائے گا لیکن فیصلہ بہر حال اکثریت کا ہو گا جو تحریک انصاف کے پاس ہے۔