اب دیکھئے ہوتا کیا ہے؟

February 24, 2013

ہزارہ ٹاؤن کیرانی روڈ کے سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کی میتوں کو آہوں ، سسکیوں میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ کوئٹہ کی تاریخ میں دہشت گردی کا دوسرا بڑا سانحہ ہے۔ پہلے علمدار روڈ پہ ایسا سانحہ ہوا اور دونوں سانحات میں اب تک سوا دو سو کے قریب افراد جاں بحق اور تین سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جو اب اپنے پیاروں پر ہمیشہ کیلئے بوجھ بن گئے ہیں۔ جب پہلا سانحہ ہوا تو لواحقین نے کوئٹہ کی شاہراہ پر میتوں کے ساتھ دھرنا دیا اور حکومت کو وزیراعلیٰ برطرف کر کے بلوچستان میں گورنر راج لگانا پڑا لیکن اس کے باوجود یہ سانحہ ہوگیا۔ اس بار بھی لواحقین نے ہزارہ ٹاؤن میں میتوں کے ہمراہ دھرنا دیا۔ اب یہ دھرنا کوئٹہ تک محدود نہ رہا بلکہ کراچی، لاہور سمیت پورے ملک میں ہزارہ برادری سے اظہار یکجہتی کیلئے ایسے دھرنے دیئے گئے اور بلاتفریق تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں نے اس سانحے کی مذمت کی اور ہمارے وزیر داخلہ نے تو پھر ایک بار فتویٰ دے دیا کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے 80فیصد واقعات میں لشکر جھنگوی ملوث ہے اور ان کا گڑھ پنجاب ہے، جب پنجاب حکومت ان کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں کرے گی تو وفاق کو ایسا کرنا پڑے گا۔ ہزارہ ٹاؤن سانحہ کا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ پہلے سانحے کے بعد گورنر راج لگایا گیا یہ بھی امن وامان قائم کرنے میں ناکام رہا اب کیا کیا جائیگا۔ سپریم کورٹ میں آئی ایس آئی نے یہ رپورٹ پیش کی کہ دہشت گردی کے واقعے کی اطلاع حکومت کو قبل از وقت کر دی گئی تھی اور سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کیا ایجنسیاں سول انتظامیہ کو ہاتھ پکڑ کر سانحہ کی جگہ لے کر جاتیں۔ گو اب وزیراعظم نے ٹارگٹڈ آپریشن کا حکم دیا ہے مگر یہ کوئی مستقل حل نہیں کیونکہ لواحقین کے علاوہ بعض لوگوں کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیا جائے مگر بعض حلقوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر فوج بھی ناکام ہوگئی تو پھر کیا ہوگا۔ سید منور حسن کا کہنا ہے کہ ملٹری آپریشن تو ایک گیلا کمبل ہے جسے اتارنے میں گیارہ سال لگ جاتے ہیں کیونکہ ایسے سانحات میں غیر ملکی ہاتھ کے شواہد بھی ہیں۔ زبان خلق تو یہ بھی کہتی ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے ایسے واقعات ان طاقتوں کی طرف سے کرائے جا رہے ہیں جو اس ملک میں جمہوریت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے، انہیں تو کوئی ڈکٹیٹر چاہئے جو ان کے ایجنڈے کو پورا کر سکے۔ امریکہ کو تو یہ بھی تکلیف ہے کہ گوادر کی بندرگاہ کا کنٹرول چین کو کیوں دیا گیا ہے اور ایران کے ساتھ پائپ لائن بچھانے کے معاہدے کیوں منطقی انجام تک پہنچ رہے ہیں۔ اس چیز کی تصدیق کیلئے سنیٹر رضا ربانی کے سینیٹ میں دیئے گئے بیان کو قابل اعتبار سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی پر اقوام متحدہ، امریکہ اور برطانیہ کے بیانات کے تانے بانے سازش سے ملتے ہیں اور گوادر بندرگاہ چین کے سپرد کرنے سے روکنے کیلئے دہشت گردی کی گئی، بحیثیت قوم ہمارے لئے یہ سب سے بڑا لمحہٴ فکریہ ہونا چاہئے۔دوسری طرف انتخابات سر پہ آ پہنچے ہیں اور جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازشیں بھی اپنے عروج پر ہیں کیونکہ عوام کو اب یقین ہونا شروع ہوگیا ہے کہ شاید اس مرتبہ ان کے ووٹ کی قیمت پڑ جائے اور ملک میں اچھی تبدیلی وہ دیکھ سکیں کیونکہ الیکشن کمیشن تو ایسے اقدامات اٹھا رہا ہے جن کا راستہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کی طرف جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پہلے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے قوانین کا مسودہ پارلیمینٹ میں پیش کیا جس میں 30 دن کی اسکروٹنی کا وقت شامل تھا مگر کمیٹی نے یہ مدت 14دن تک رکھنے کی منظوری دی ہے،گو یہ اچھی علامت نہیں۔ اسی دوران7فروری 2013ء کو الیکشن کمیشن کے لیگل ڈائریکٹر ثناء اللہ ملک کی طرف سے 249/ارکان پارلیمینٹ کو یہ خط لکھا گیا ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر ہائر ایجوکیشن کمیشن سے اپنی اسناد کی تصدیق کرائیں ورنہ انہیں نااہلی اور فوجداری مقدمات کا سامنا ہوگا۔ عوام کو یہ یاد رہنا چاہئے کہ 2010ء میں دی نیوز کی اس خبر پر نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ڈگری کی تصدیق کا حکم دیا تھا اور1095میں سے 749/ارکان کا ڈگریاں مستند جبکہ 55 کی جعلی ثابت ہو چکی ہیں۔ اب یہ ارکان تعاون نہیں کر رہے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پندرہ دن میں ان کی تصدیق کیسے ممکن ہے جبکہ بیشتر ارکان نے اپنی میٹرک اور انٹر کی اسناد فراہم بھی نہیں کیں۔ دوسری طرف پارلیمینٹ میں ڈگریوں کی تصدیق کے نوٹسوں پر سخت تنقید کی گئی اور اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار نے یہ ڈگریاں الیکشن کمیشن کو بھجوانے سے انکار کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے دو روز قبل کاغذات نامزدگی میں15ترامیم کی منظوری دی ہے کہ کاغذات نامزدگی 6صفحات پر مشتمل ہوں گے۔ امیدوار کو اپنی آمدنی، یوٹیلٹی بل، ٹیکس اور اثاثوں کی تفصیلات دینا ہوں گی اور یہ بتانا ہوگا کہ 5سال کے دوران انہوں نے اپنے حلقے کے عوام کیلئے کیا کیا۔ کاغذات نامزدگی کے ساتھ اہل خانہ کی مکمل تفصیلات دینا ہوں گی۔ امیدواروں کے بچے بیرون ملک میں ہیں تو ان کے بارے میں بتانا ہوگا۔ گزشتہ تین سال میں بیرون ملک کئے گئے دوروں اور غیرملکی پاسپورٹ سے متعلق بھی بتانا ہوگا، پارٹی سے ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے رقم دی یا لی اور الیکشن کمیشن نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ جعلی ڈگری اور دہری شہریت والے افراد جن کے متعلق سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے وہ نااہل ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کے ان فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے ایف بی آر، نادرا ، نیب اور گورنر اسٹیٹ بنک نے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے ۔گورنر اسٹیٹ بنک نے کہا ہے کہ اس نے قرض نادہندگان کے بارے میں ہوم ورک مکمل کر لیا ہے اور یہ معلومات الیکشن کمیشن کو فراہم کریں گے جبکہ سپریم کورٹ نے 1972ء سے لے کر اب تک قرض لینے والوں کے نام عام کرنے کا بھی حکم دے دیا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ وہ ٹیکس نادہندگان کی فہرستیں فراہم کریں گے۔ نادرا نے ایسی معلومات اور خاندان سے متعلق آن لان فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ نیب کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جو کرپشن میں ملوث ہیں ان کی صوبہ وائز فہرستیں الیکشن کمیشن کو فراہم کریں گے۔ ایسے اقدامات پر ایک عام پاکستانی تو یقینا اطمینان کا اظہار ہی کرے گا کہ شاید اب کی بار الیکشن منصفانہ اور شفاف ہو جائیں مگر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ ان تمام اقدامات پر عملدرآمد یا کاغذات نامزدگی میں ترامیم کی حتمی منظوری صدر زرداری کو دینی ہے، جب تک ان کی حتمی منظوری نہیں ہوتی تو الیکشن کمیشن عملی قدم اٹھانے میں بے بس ہوگا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس وقت الیکشن کے انعقاد کو روکنے کیلئے جو قوتیں کام کر رہی ہیں یا وہ افراد یا امیدوار جو ان ترامیم کی وجہ سے نااہل ہو سکتے ہیں وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ آرٹیکل 62، 63پر عملدرآمد ہو۔ اب دیکھئے ہوتا کیا ہے؟ لیکن عوام سے یہی اپیل کرنی ہے کہ وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے الیکشن کمیشن کے ہر اچھے قدم پر اس کے معاون بنیں!