یہ ’’تبدیلی‘‘ نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجیے....

December 01, 2019

پیرزادہ شریف الحسن عثمانی

اس بات میں ہرگز دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ گزشتہ چند ماہ میں واقعی مُلک کا ہر گوشہ اور عوام’’ تبدیلی‘‘ کی ’’زَد‘‘ میں ہیں۔ ہر جگہ، ہر سطح پر ، ہر لحاظ،ہر طرح سے تبدیلی آئی ہے۔جس میں سب سے بڑی تبدیلی توخوداس لفظ کے معنی، مفہوم اور استعمال میں آئی ہے۔ کل ہی ایک صاحب اپنی خراب استری الیکٹریشن کے پاس لے جا کر کہنے لگے ’’بھائی! ذرا دیکھنا اسے ، ٹھیک سے کام نہیں کر رہی ، لگتا ہے اس میں کوئی ’’تبدیلی‘‘ آ گئی ہے۔‘‘ ایک صاحب اپناپرانا موبائل فون فروخت کرتے ہوئے کہنے لگے’’جناب ! یہ سیٹ آنکھ بند کر کے خرید لیجیے ، بخدا اس میں کوئی ’’تبدیلی‘‘ نہیں ہے ۔‘‘اسی طرح ایک صاحب کو کاروبار میں نقصان ہوا، تو وہ اسے اپنے مقدّر کی ’’تبدیلی‘‘ قرار دے کر سر پکڑ کےبیٹھ گئے۔

دراصل کسی زمانے میں تبدیلی کی دو اقسام’’مثبت اور منفی‘‘ ہوا کرتی تھیں۔ پر فی زمانہ، اوّل الذکر مفقود ہو گئی ہے۔ اللہ بخشے ، علاّمہ اقبال مرحوم کی فراست کو سلام ہے، جو عشروں پہلے آج کے حالات پر کیا خوب شعر ارشاد فرما گئے کہ؎سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے ميں…ثبات ايک تغيّر کو ہے زمانے میں۔ لوگ یونہی تو انہیں قومی شاعر نہیں مانتے ۔ ’’قومی بے سکونی ‘‘کے اس ماحول کا ادراک انہیں برسوں پہلے ہو گیا تھا اوروہ اس کی وجہ سے بھی آگاہ تھے ۔واہ !ویسے تبدیلی کا شوق اتنا برا بھی نہیں ، مگر شنید یہ ہے کہ ایک بار جو اس شوق میں مبتلا ہو جائے، توپھر وہ کہیں کا نہیں رہتا۔ انسان تو انسان ہمارے مُلک میں آنے والی تبدیلی نے توڈالر، پیٹرول، گولڈ اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں تک کو اپنی زد میں لے لیا ہے۔

تبدیلی کے فوائد پر نظر دوڑائیں تو عوامی سطح پر کافی اطمینان بخش صُورتِ حال نظر آتی ہے۔ جیسے اب چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں نمایاں کمی آئی ہے، ظاہر ہے جب عوام کی جیبوں میں کچھ بچا ہی نہیں، تو چور ، چوری کیا کرے۔ سو، انہوں نے ’’توبۃالنّصوح‘‘ کی ٹھان لی۔اللہ جھوٹ نہ بلوائےاب تولوڈشیڈنگ کے اوقات میں بھی نمایاں تبدیلی آگئی ہے،یعنی پہلے جتنے گھنٹوں کے لیے بجلی جاتی تھی ،اب اُتنے ہی گھنٹوں کے لیے آتی ہے۔ عوام کی خوشیوں کا توکوئی ٹھکانہ ہی نہیں کہ ایک کے بعد ایک بڑے بڑے چور، ڈاکو، لٹیرے پکڑے جارہے ہیں ۔

جنہوں نے بے دردی سے عوام کا پیسا لُوٹا، ان سے پائی پائی وصولی جا رہی ہے، بوریاں بھر بھر کے نوٹ اور سوٹ کیس بھر بھر کے سونا ،چاندی ، ہیرے ،جواہرات برآمد کیے جا رہے ہیں۔اور عوام خوشی سے اتنے نہال ہیں کہ یہ تک نہیں پوچھ پا رہے کہ جناب! جب اتنا کچھ ری کوَر ہورہا ہے،تو ہم پہ روز انہ کی بنیادوں پر منہگائی بم کیوں پھوڑے جا رہے ہیں، ادویہ تک ہماری پہنچ سے دُور کیوں ہو گئی ہیں، معیشت کیوں تباہ ہو رہی ہے…؟؟ قصّہ مختصر ، نئے پاکستان کے لیے تبدیلیوں کا یہ سفر بہت ضروری ہے، بہت سے لوگ تو دل ہی دل میں پرانے پاکستان جانے کے لیے پر تولے بیٹھے ہیں، بس اُنہیں کوئی سواری نہیں مل رہی۔ لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب ’’حامیانِ تبدیلی‘‘کے خیالات میں بھی واضح’’ تبدیلی ‘‘نظر آنےلگی ہے اور بقول شخصے یہ مفقود قسم والی تبدیلی ہے۔