نیول چیف! بہت اچھا

December 09, 2019

اپنے نیول چیف سے متعلق آگے چل کر بات کروں گا جس نے مجھے بہت خوشی دی لیکن پہلے ایک تکلیف دہ حقیقت اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ چند روز قبل مجھے میرے ایک جاننے والے نے بتایا کہ آئس کا نشہ کس تیزی سے معاشرے میں پھیل رہا ہے لیکن اسے روکنے کے لیے خاطر خواہ کوششیں نہیں ہو رہیں۔

کالج، یونیورسٹیوں کے علاوہ خواتین سمیت عام لوگوں تک کو یہ نشہ بڑی آسانی سے فراہم کیا جا رہا ہے جس کے وجہ سے گھروں کے گھر برباد ہو رہے ہیں۔ مجھے کچھ ایسے افراد کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ وہ آئس کے نشے کا شکار ہو چکے ہیں، جو میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان افراد میں وہ بھی شامل ہیں جن کی عمریں چالیس، پچاس بلکہ چند ایک اس سے بھی بڑے ہیں۔ کسی نے اپنے گھر کو بیچ دیا، کوئی اپنے کاروبار کو فروخت کر کے اس نشے پر اپنی زندگی کی جمع پونچی کے ساتھ ساتھ اپنے زندگی کو ختم کرنے اور اپنے بیوی بچوں کی زندگیوں کو برباد کرنے پر لگا ہوا ہے۔

ایک پچاس سالہ شخص جس کا تعلق بہت امیر فیملی سے بتایا گیا، نہ صرف آئس نشے پر لگ چکا ہے بلکہ اُس کا پندرہ سولہ سالہ بیٹا بھی یہی نشہ کرتا پایا گیا۔ بچے کا تو علاج معالجہ کروا کر اُسے اس لعنت سے چھٹکارا دلوا دیا گیا لیکن باپ اب بھی باز نہیں آ رہا۔

ایک صاحب کے بارے میں بتایا گیا کہ اُنہوں نے اپنے بیٹے کو آئس نشہ نہ چھوڑنے پر گھر سے ہی نکال دیا۔ یہ ہزاروں، لاکھوں گھروں کی دل دُکھا دینے والی کہانیاں ہیں لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت، اے این ایف اور دوسرے ذمہ دار ادارے نشہ آور اشیا بشمول ہیروئن اور آئس کے ذریعے موت بیچنے والوں کے قابو کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔

ایسے لوگوں کو پکڑ کر عدالت کے ذریعے فوری انصاف کے تحت سر عام پھانسیاں دی جائیں جبکہ ایسے خاندان جن کے افراد نشہ کرنے لگ گئے ہیں، اُنہیں چاہئے کہ نشے سے متاثرہ اپنے پیاروں کو اُن کی حالت پر چھوڑنے یا گھروں سے نکالنے کے بجائے اُن کا علاج کروائیں۔ کچھ بھی ہو، جتنی بھی مشکل ہو، ایسے افراد کا علاج کروائیں، اُن پر پہرہ دیں، اُن کی دوستیاں اور صحبتیں بدلیں لیکن اُنہیں اُن کے حال پر مت چھوڑیں۔

حکومت کو بھی چاہئے کہ نشے کے شکار افراد کے علاج اور اُن کی بحالی میں متاثرہ خاندانوں کی مدد کرے اور اس بارے میں باقاعدہ پالیسی بنائی جائے ورنہ یہ لعنت ہر گھر میں داخل ہو جائے گی۔

مندرجہ بالا موضوع پر اس لیے لکھا کہ جو کچھ مجھے بتایا گیا اُس پر میرا دل دکھی تھا اور یہ بھی کہ جن کے بارے میں مجھے بتایا گیا، اُن کو میں ذاتی طور پر جانتا بھی ہوں۔

اب قارئین کو ایک اچھی خبر سناتا ہوں ہمارے نیول چیف کے بارے میں جنہوں نے حال ہی میں ایک نجی کالج میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جسے سن کر بہت خوشی ہوئی اور میرے دل سے دعا نکلی کہ کاش! ہمارے ہر فوجی، ہر سیاستدان، ہر جج کی یہی سوچ ہو تو ہم بحیثیت قوم کیا سے کیا بن جائیں۔

پاکستان بحریہ کے سربراہ (نیول چیف) ایڈمرل ظفر محمود عباسی ہیں، جو یونیورسٹی طلبہ سے اپنے خطاب میں پاکستان اور اسلام سے متعلق بات کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار کر رہے تھے کہ ان شاء اللہ اسلام کا Revival پاکستان سے ہوگا کیونکہ ہمارا آئین قانونی طور پر اسلامی ہے اور اب ہمیں اس ملک کو عملی طور پر اسلامی بنانا ہے، جس کے لیے پاکستان کے نوجوانوں کا کردار سب سے اہم ہے، ہمیں اپنے نوجوانوں کو دین پڑھانا اور دین سکھانا ہے۔

نیول چیف نے کہا کہ ہم آج کل مغرب کی مادہ پرستی سے بہت متاثر ہیں۔ اُنہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ وہ انگریز ی زبان ضرور سیکھیں اور بولیں بھی لیکن اپنے اصل مقصد ِ حیات اسلام سے جڑ جائیں اور اس بات کی خواہش اور کوشش کریں کہ اسلامی امہ کو عروج حاصل ہو۔

اُنہوں نے کہا ہمیں مغرب کے نیچے لگ کر ترقی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنی اصل پہچان اور اسلام پر فخر کرنا چاہئے۔ علامہ اقبال کے کلام کا حوالہ دیتے ہوئے نیول چیف نے کہا کہ مغرب کی تقلید کرتے ہوئے مسلمان کبھی عروج حاصل نہیں کر سکتے۔

ایڈمرل ظفر محمود عباسی کا تعلق مری سے ہے اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ اسلامی سوچ کے حامل ہیں اور اپنی اس سوچ کا وہ کھل کر ہر جگہ بڑے فخر کے ساتھ اظہار بھی کرتے ہیں۔

ایک سینئر نیول آفیسر کے مطابق موجودہ نیول چیف نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی پاکستان نیوی کے تحت چلنے والے اسکولوں میں قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کی ہدایت جاری کر دی تھی۔

میں ہمیشہ سے کہتا ہوں کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان کی فوج کو صرف اور صرف اسلام کی فوج ہی ہونا چاہئے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ افواج پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہر فوجی خصوصاً افسران کو اسلام کی تعلیمات سے مکمل روشناس کرایا جائے تاکہ ہمارا ہر افسر، ہر سپاہی وہی بات کرے جو ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے کی۔

اگر ہمارے جج، ہمارے سیاستدان اور میڈیا بھی اس سوچ اور فکر کے مطابق اپنا پنا کردار ادا کریں تو واقعی پاکستان دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی امید بن کر ابھر سکتا ہے۔

آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر ہم نہ دنیا میں کچھ حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی آخرت میں اپنی کامیابی کی کوئی امید کر سکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)