افغان امن: کلید ِاستحکام

December 11, 2019

پڑوس میں آگ لگی ہو تو ممکن نہیں کہ اس کی تپش دوسروں تک نہ پہنچے، چالیس برس سے میدانِ جنگ بنے ہوئے افغانستان میں بھڑکنے والی آگ نے پاکستان کو معاشی، معاشرتی اور اقتصادی طور پر کتنا جھلسایا، پوری دنیا اس سے آگاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک عرصے سے نہ صرف ایک پرُامن و مستحکم افغانستان کا خواہاں ہے بلکہ اس ضمن میں اس کے عملی اقدامات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ترکی کے شہر استنبول میں ہارٹ آف ایشیا کے وزراء کے آٹھویں اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے تاریخی تعلقات کا دعویٰ اور ایک مستحکم افغانستان کی خواہش پاکستان سے بڑھ کر کوئی نہیں کر سکتا، افغانستان میں امن اندرونی مذاکرات کے ذریعے نتیجہ خیز بنانے کیلئے عالمی برادری بھی بھرپور توجہ دے۔ افغانستان میں بدامنی کے پاکستان پر جو اثرات مرتب ہوئے ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں البتہ اس کے حوالے سے پاکستان کا قومی بیانیہ سب کے سامنے ہے کہ اب کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے اور افغانستان کا واحد حل پرُ امن مذاکرات ہیں۔ پاکستان کا بیانیہ مبنی برحقیقت ہے کہ اگر جنگ و جدل سے اس قضیے کا حل ممکن ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا۔ افغان مسئلے کے سردست چار فریق ہیں، افغان حکومت، امریکہ، طالبان اور پاکستان، اور اب سب ہی عملی طور پر پاکستان کے موقف کے قائل ہو چکے ہیں اور مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی منزل کی جانب پیش رفت جاری ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے تین ماہ پہلے مذاکرات منسوخ کیے جانے کی غلطی کا امریکہ نے اپنے عملی اقدامات کی شکل میں اعتراف کر لیا ہے اور قطر میں مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ اس مرحلے پر وقت کا تقاضا ہے کہ ہر ایک پوری نیک نیتی کے ساتھ اس عمل کو آگے بڑھائے اور کامیاب بنائے کیونکہ یہ علاقائی ہی نہیں عالمی امن کیلئے بھی ناگزیر ہے۔