صورتحال تبدیل، عالمی میڈیا میں اب تقسیم انڈیا کی باتیں، تجزیہ کار

December 11, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

دیکھئےجیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ صورتحال اب بالکل بدل گئی ہے،عالمی میڈیا اب بھارت میں تقسیم کی باتیں کررہا ہے، بھارتی سیکولرازم پر سوال اٹھارہا ہے اور تیزی سے گرتی ہوئی معیشت پر تنقید کررہا ہے۔

ایک کے بعد ایک متنازع فیصلے کے بعد اب نریندر مودی کے حوالے سے دنیا کی رائے بدل رہی ہے۔واشنگٹن میں ماہر جنوبی ایشیائی امور مائیکل کوگلمین نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن میں سیکولرازم، جمہوریت بھارت کی پہچان ہے لیکن وہ تیزی سے ختم ہورہی ہے۔

میزبان شاہزیب خانزادہ تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب دنیا میں یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور چمکتا دمکتا بھارت ایسا سیکولر ملک ہے جو تیزی سے ترقی کررہا ہے، معیشت مضبوط ہورہی ہے، بہت جلد بھارت چین کے سامنے کھڑا ہوجائے گا۔

سب سے بڑھ کر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو تبدیلی کی علامت قرار دیا گیا، یہ کہا جانے لگا کہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت تیزی سے تبدیل ہوگا، تیزی سے ترقی کرے گا مگر صورتحال اب بالکل بدل گئی ہے، عالمی میڈیا اب بھارت میں تقسیم کی باتیں کررہا ہے۔

بھارتی سیکولرازم پر سوال اٹھارہا ہے اور تیزی سے گرتی ہوئی معیشت پر تنقید کررہا ہے مگر یہ اچانک کیا ہوا ہے، کیسے یہ سب کچھ بدلا ؟ اس کا تفصیل سے جائزہ لیں گے لیکن سب سے پہلے بات کریں گے بھارت میں ہونے والی متنازع آئینی ترمیم کی جس کے بعد ایک بار پھر سے مودی حکومت تنقید کی زد میں ہے۔

بھارتی لوک سبھا نے بارہ گھنٹے کی طویل بحث کے بعد تارکین وطن کی شہریت سے متعلق متنازع ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا، بل کے حق میں 311 ووٹ آئے جبکہ اس کی مخالفت میں 80ووٹ پڑے۔

اس قانون کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت آنے والے ہندو، بودھ، سکھ، عیسائی اور پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کی تجویز دی گئی ہے لیکن اس فہرست میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا،یعنی پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے کسی بھی مذہب کا پیروکار جو اکتیس دسمبر 2014ء سے پہلے بھارت میں داخل ہوا ہوگا وہ بھارت کی شہریت اختیار کرسکے گا مگر مسلمانوں کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ بھارتی شہری بن سکے۔

اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے 2016ء میں بھی یہ بل لوک سبھا میں پیش کیا تھا مگر اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے راجیہ سبھا میں پیش نہیں کرسکی تھی جس کے بعد ایک بار پھر سے کوشش کی گئی اور اس بل نے ابھی راجیہ سبھا بھارتی پارلیمنٹ سے منظور ہونا ہے جہاں حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔

بہرحال اس بل پر تنقید ہورہی ہے، اس حوالے سے بی جے پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان مذاہب کے تارکین وطن کوا س بنیاد پر شہریت دی جائے گی کہ انہیں اپنے ملک میں مذہبی مظالم اور تفریق کا سامنا کرنا پڑرہا تھا، بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان مسلم اکثریتی ممالک ہیں اس لئے اس فہرست میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔

حکومت نے مسلمانوں کے لئے کوئی امتیازی رویہ اختیار نہیں کیا مگر اپوزیشن اسے امتیازی اور آئین کی بنیاد کے خلاف سمجھ رہی ہے، اسے بھارتی سیکولرازم کے خلاف بڑا قدم قرار دیا جارہا ہے، مسلمان رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی کاپی پھاڑ دی۔

اویسی نے کہا کہ بل میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن یہ بتایا جائے مسلمانوں کیخلاف اتنی نفرت کیوں ہے، بھارتی اپوزیشن کا اعتراض ہے کہ بی جے پی کا اس بل کو لانے کا مقصد بنگالی ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔

یہ بل بھارتی آئین کے آرٹیکل 14کی خلاف ورزی ہے، اس وقت بھارت کے مختلف شہروں خاص طور پر شمال مشرقی ریاستوں میں مظاہرے ہورہے ہیں، 2014ء سے نریندر مودی اقتدار میں ہیں اور مسلسل بھارت میں انتہاپسندی فروغ پارہی ہے، بھارتی حکومت مسلسل متنازع فیصلے کررہی ہے، اس بل سے آسام میں بہت زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے۔

یہ کہا جارہا ہے کہ یہ بل 1985ء کے آسام کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت 24مارچ 2014ء تک آنے والے بنگلہ دیشیوں کو بھارتی شہری قرار دیا گیا تھا مگر اب اکتیس دسمبر 2014ء تک آنے والے ہندو بنگالیوں کو تو شہریت کے لئے اہل قرار دیا گیا ہے مگر مسلمان اس سہولت سے محروم رہیں گے۔

مودی حکومت اگست میں آسام میں رہنے والے بیس لاکھ افراد کی بھارتی شہریت کو خارج کرچکی ہے اور یہ سب بنگلہ دیشی مسلمان تھے، بہرحال نریندر مودی اسے بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

بل کی منظوری کے بعد انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ خوشی ہوئی کہ لوک سبھا نے ایک بھرپور اور پرزور بحث کے بعد شہری ترمیمی بل 2019ء منظور کرلیا، میں اس بل کی حمایت کرنے پر مختلف اراکین پارلیمنٹ اور پارٹیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں،اس حوالے سے بلومبرگ میں پنکج مشرا کا ایک آرٹیکل شائع ہوا ہے جس کے مطابق بھارت کے حوالے سے اچانک نیا بیانیہ سامنے آرہا ہے،۔

اس سے پہلے بھارت کو ایک عظیم جمہوریت کے ساتھ ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اسے چین کے خلاف مغرب کا اہم شراکت دار سمجھا جاتا تھا، خود 2015ء میں امریکی صد ر نے مودی کو ریفارمر انچیف کہا تھا جو بھارت کو آگے لے جاسکتے ہیں۔

یہ باراک اوباما نے کہا تھا مگر اب جو بیانیہ سامنے آرہا ہے اس ملک کی سیاست اور سول سوسائٹی کو ہندو انتہاپسندوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے، پنکج مشرا کے مطابق بھارت کی معیشت بھی سست روی کا شکار ہورہی ہے، اس آرٹیکل کے مطابق اس ہفتے امریکی میگزین نیویارکر میں شائع ہونے والی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ بھارت پر نظریاتی جنونیوں کی حکومت ہے جو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

ساکھ کی کیاڈرامائی تبدیلی ہے ہیرو سے زیرو تک۔ اس کے علاوہ معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے نریندر مودی کے دور میں سامنے آنے والی انسانی حقوق کی صورتحال پر تفصیلی رپورٹ شائع کی، گیارہ نومبر کو نیویارک ٹائمز میں ایک آرٹیکل شائع ہوا جس کا عنوان تھا ”بھارت میں تبدیلی مکمل ہونے کے قریب ہے“ اس آرٹیکل میں مودی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اس کے علاوہ نیویارک ٹائمز میں کشمیر کے حوالے سے کئی رپورٹس شائع ہوئیں اور انہیں خصوصی کوریج دی گئی، یہ تھی چند اخبارات کی رائے، اب بات کریں گے امریکا کے معروف میگزین نیویارکر کی اور اس تفصیلی اسٹوری کی جس کا عنوان ہے "Blood and Soil In Narendra Modiʼs India" جس نے بی جے پی کی سیاست کو بے نقاب کردیا ہے اور اس پر شدید تنقید کی ہے۔

کئی واقعات اور حقائق ایسے سامنے لائے گئے ہیں جو نریندر مودی کی، ان کے بہت قریبی ساتھی کی پوری کی پوری سیاست کا کٹھا چٹھا کھول کر رکھ دیتے ہیں، ایک تربیت یافتہ ماہر نفسیات کے طور پر وہ ہندو قوم پرستوں کی ذہنیت کو سمجھنا چاہتے تھے۔

جن لوگوں کے انٹرویوز انہوں نے کیے ان میں ایک بہت کم مقبولیت رکھنے والے نریندر مودی بھی شامل تھے، اشیش نینڈی کے مطابق انہوں نے نریندر مودی میں ایک آمرانہ شخصیت کی خصوصیات دیکھیں۔

انہوں نے ایک کٹر پن اور سختی پن دیکھی، ان کے بقول مودی نے انہیں ایک تصوراتی کہانی بتائی کہ کیسے بھارت دنیا کی سازشوں کا ٹارگٹ ہے جس سازش میں بھارت کا ہر مسلمان ممکنہ طور پر شامل ہے۔

نریندر مودی کا انٹرویو کرنے والے ماہر نفسیات کے مطابق مودی ہر لحاظ سے ایک فاشسٹ ہے اور یہ میں ان کی برائی کرنے کے لئے نہیں کررہا بلکہ ان کی شخصیت کی تشخیص کے لئے کہہ رہا ہوں۔

آرٹیکل میں آگے مزید لکھا ہے کہ سال گزرتے گئے پھر 27فروری 2002ء کو ایک مسافر ٹرین کو گودھرا میں روکا گیا جو گجرات کا مشہور شہر ہے۔

یہ ٹرین ایودھیا سے آرہی تھی بہت سے مسافر وہ جگہ دیکھنے اور وہاں مندر کی تعمیر کے حق میں آواز اٹھانے گئے تھے جہاں بابری مسجد کو مسمار کیا گیا تھا۔