سرعام غلطی ماننا ہوگی، وکلاء میں کالی بھیڑیں، اسپتال پر حملے کی جرأت کیسے ہوئی، ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، لاہور ہائیکورٹ

December 14, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

اسپتال پر حملے کی جرأت کیسے ہوئی، ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، لاہور ہائیکورٹ

لاہور(نمائندہ جنگ، نیوز ایجنسیاں ) لاہور ہائیکورٹ نے پی آئی سی حملے کے ملزمان وکلا کی درخواست ضمانت کی سماعت کے موقع پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سر عام غلطی ماننا ہوگی،وکلاء میں کالی بھیڑیں ہیں، اسپتال پر حملے کی جرأت کیسے ہوئی، ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، جسٹس باقر نجفی کا وکلاء سےکہناتھاکہ آپ وضاحت دے سکتے ہیں حملہ کیوں کیا ؟تسلیم کریں منصوبہ بندی بار روم میں ہوئی۔

جس پر ایڈووکیٹ اعظم تارڑ نے کہا کہ ٹی وی پروگرامز میں حملے کی مذمت کرچکے اس پر جسٹس انوارالحق نے کہا کہ بار کونسل پر ایسی کا رروائی ہو توکیا کرینگے؟

ادھر وکیلوں کو رہا کرانے کے لیےجوائنٹ ایکشن کمیٹی نے 2 بار چیف جسٹس ہائیکورٹ سے ملاقات کی، جسٹس انوارالحق پنوں کے بعد جسٹس قاسم خان نے کیس سننے سے معذرت کرلی، دوسری جانب مزید 8 وکلاء کا خصوصی عدالت سے جسمانی ریمانڈ مل گیا۔

تفصیلات کے مطابق پی آئی سی پر حملے کے الزام میں گرفتار کئے گئے وکلاکی ضمانت کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی جس میں جسٹس علی باقر نجفی نے انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ نے اسپتال پر حملہ کیا، آپ کی جرأت کیسے ہوئی اسپتال پر حملہ کرنے کی، کیاآپ وضاحت دے سکتے ہیں کہ کیوں حملہ کیا گیا؟ آپ اس کو وقوعہ کہتے ہیں؟

آپ کواندازہ نہیں ہم کس کرب میں مبتلا ہیں، ہم بڑی مشکل سے اس کیس کی سماعت کررہے ہیں، کہیں تو اس کیس کو کہیں اور ٹرانسفر کردیتے ہیں، آپ سرعام تسلیم کریں کہ آپ نے لاہور ہائیکورٹ بار میں پلاننگ کی جبکہ جسٹس انوارالحق نے کہا آپ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، ایک وڈیو بہت عجیب تھی جس میں کہا جارہا تھا یہ ڈاکٹر کی موت ہے۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ نے موقف پیش کیا کہ ہم کوئی بھارت سے جنگ لڑنے نہیں آئے جس پر جسٹس علی باقرنجفی نے کہا ’ہاں آپ جنگ لڑنے ہی آئے ہیں‘۔

اعظم نذیر نے کہا پولیس کو کسی پرتشدد کرنے کا اختیار نہیں، ہم وکلا کے خلاف کارروائی کررہے ہیں، اب تک 81 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

جسٹس انوارالحق نے ریمارکس دیئے کہ اگر بارکونسل پر ایسی کارروائی ہو تو کیا کریں گے؟ جس پر اعظم نذیر نے کہا کہ وہ ٹی وی پروگرامز میں حملے کی مذمت کرچکے ہیں۔

جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے دفاع کرنے والے وکلا سے کہا کہ آپ کے پروفیشن میں کالی بھیڑیں ہیں، اس طرح جنگوں میں بھی نہیں ہوتا، آپ سر عام تسلیم کریں جنگل کے قانون میں معاشرے نہیں بچتے اور جو وکیلوں نے کیا وہ جنگل کا قانون ہے، جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے عدالتی اوقات ختم ہونے کے باوجود اس کیس کی سماعت کی اس سے قبل یہ درخواستیں جسٹس انوار الحق پنوں کو سماعت کے لیئے بھیجی گئیں مگر فاضل جج نے سماعت سے معذوری ظاہر کر دی جس پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ارکان چیف جسٹس کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ اس کیس کو آج ہی سماعت کے لئے کسی دوسرے بنچ کو بھجوا دیا جائے جس پر یہ کیس جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں بنچ کے پاس بھیج دیا گیا مگر بنچ کے دوسرے رکن کی عدم موجودگی کی وجہ سے پھر اس کیس کی سماعت نہ ہوئی اس پر وکلا دوبارہ چیف جسٹس کے پاس گئے اور ان سے استدعا کی کہ اس کیس کو کسی اور بنچ میں لگا دیا جائے اس دوران عدالتی اوقات کار بھی ختم ہو چکے تھے۔

تاہم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ تشکیل دیا گیا بنچ نے پی آئی سی حملے میں گرفتار وکلاء کی رہائی کی 4 درخواستوں پر سماعت شروع کی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پرویز اقبال گوندل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل چودھری ظفر حسین پیش ہوئے درخواست گزاروں کی طرف سے اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ مکمل وکلاء کمیونٹی اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتی ہے اس ملک کا آئین سپریم ہے جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا وہ تمام لیسکو کے ملازمین ہیں لوگوں نے موقع پر کپڑے تبدیل کئے اور افسوسناک واقعہ پیش آیاہماری تمام تر کوششوں کے باوجود انتظامیہ نے کچھ نہیں کیایقیناً اس واقعے کے بعد سماجی پریشر انتظامیہ پر تھاہمارا یہ معزز پیشہ ہے ہم نے اس معاملے کو طول نہیں دینا، ہم وکلاء کیخلاف کارروائی کرنے جا رہے ہیں، بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

دریں اثنا انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پی آئی سی پر حملے میں گرفتار 8 وکلا کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے ایڈمن جج عبدالقیوم کیس کی سماعت کی سرکاری وکیل ملزموں کے 15روز جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی اس موقع پر انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے اطراف سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیئے گئے تھے۔

پولیس کی بھاری نفری عدالت کے اندار اور باہر تعینات تھی ملزم وکلا کو انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں میڈیا کا داخلہ بھی بند کر دیا گیا تھا کچھ وکلا کے علاوہ میڈیا نمائندگان کو بھی احاطہ عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی عدالت نے کیس کی سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کردی۔