سر رہ گزر

December 15, 2019

رِٹ ہے مگر وقوع کے بعد

ہمارے پاس خدا کا دیا سب کچھ ہے مگر استفادہ ضرورت کے بعد کیا جاتا ہے، اگر کوئی اسے خود ستائشی نہ سمجھے تو میڈیا جان کی بازی لگا کر اپنی رِٹ برقرار رکھتا ہے۔ امراض قلب کے اسپتال پر حملے کا ایوڈینس صرف میڈیا کی برموقع ویڈیوز میں موجود ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ مریضوں، عوام، املاک کے ساتھ میڈیا بھی زد میں آیا، اگر دیکھا جائے تو یہ دو لفظی کہانی جارحیت اور مدافعت پر مشتمل ہے، تعین سے مسئلے کی حقیقت آشکار ہو سکتی ہے، بہرحال معاملہ عدالت میں ہے انصاف کی رٹ ضرور اپنا رنگ دکھائے گی۔ یہ ہولناک غیر انسانی منظر نامہ اپنے اندر دہشت کے ہزار سامان رکھتا ہے جو حکومت پنجاب کی بے سامانی کا ثبوت ہی نہیں مخدوش مستقبل کی پیش گوئی بھی ہے۔ کسی بھی طبقے کو الزام دینے سے پہلے یہ اقرار اب کر لینا چاہئے کہ معاشرہ بے لگام ہو چکا ہے ہم سب اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنے ہی ملک کو فتح کرنے چلے ہیں۔ اسی لئے تو وطن پاک کے دشمن خوش اور معدودے چند محبانِ وطن رنجیدہ، لرزیدہ اور شرمندہ ہیں، میں ایک بار پھر یہ حدیث نبویؐ دہرائوں گا کہ ’’خدشہ ہے کہ محرومی و افلاس کہیں کفر سے نہ جا ملے‘‘ اگر یہاں دولت اور مراعات کی تقسیم یکساں ہوتی تو ہم صرف آدمی نہیں انسان بھی ہوتے، مگر افسوس کہ؎

انسانیت نام تھا جس کا، چھوڑ دی ہم نے

اگر اہلیت و قابلیت کو تعلیم بنایا ہوتا تو متعلّم لاکھوں میں پہچانے جاتے، لیکن نااہلی اور میرٹ کے فقدان نے ہمیں جعلی ڈگری بنا کر رکھ دیا، کہیے! ہمیں شرافت و ترقی سے آراستہ دلہن کیونکر قبول کرے گی۔ بات ’’ڈلے بیراں دا کجھ نہیں گیا‘‘ سے آگے نکل گئی ، ہمارے بیر ’’رِڑتے رِڑتے‘‘ دوسرے ملکوں تک پہنچ چکے ہیں، اب یہاں سرمایہ لگانے کجا سیر کرنے بھی شاید ہی کوئی آئے، قصور وار کو ڈھونڈنے سے پہلے اجتماعی سطح پر قصور تسلیم کیا جائے کہ رہبر بھی ہم ہیں گمراہ بھی ہم ہیں، فیصلہ کر لیں کہ صراطِ مستقیم پر کیسے چلا جائے کہ کارآمد بھی ہیں ناکارہ بھی۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

ہم کیا جانیں زعفران کا بھائو

یہ درست ہے کہ ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘‘ مگر اس سے بڑھ کر یہ صحیح ہے کہ ’’اے ملک ہٹاں تے نئیں وکدے‘‘ قائد و اقبال نے اللہ کے حکم پر اگر پاکستان ہماری جھولی میں ڈال ہی دیا تھا تو ہمیں نہیں چاہئے تھا کہ اُس کے ساتھ پنگ پانگ کھیلتے، سزا مل رہی ہے اس ’’کارِ خیر‘‘کی مختلف اشکال میں مگر نہ جانے کسی کو سمجھ کیوں نہیں آتی۔ آج دنیا میں جو انسان اپنے وطن اور آزادیٔ رہن سہن سے محروم ہیں ان کی چیخیں ساری دنیا میں سنائی دیتی ہیں، انسان خالی پیٹ بھی لڑتا ہے اور بھرے پیٹ بھی ورنہ ہم ضرور کہتے کہ یہ سب کچھ فلک شگاف مہنگائی کے سبب ہے، مگر شر کے سرچشمے تو سب سے پھوٹ رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب اچھے بچے بن کر امن امان سے خود کو درست کریں، عذاب تو ہم نے دیکھا ہی نہیں یہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں یہ تو اس اشتہار میں پیش کی جانے والی وہ پیار بھری چٹکی ہے جو ہم ہر روز دیکھتے ہیں، پکڑ یا عذاب سے اللہ تعالیٰ بچائے مگر ہم پھر بھی اسے دعوت نامے بھیج رہے ہیں۔ اللہ جو صاحب ِ جود و کرم ہے اس نے ہمیں پاکستان دیا اور ہم اس میں موت کے کنویں چلا رہے ہیں۔ یہاں حکمرانی کا شوق بھی پیشہ بن چکا ہے یہاں تک کہ اب دین فروشی کا کاروبار چلا کر بھی گلشن کی آبرو دائو پر لگا دی ہے۔

یہ زعفران زار وطن ہمیں کس بھائو پڑا ہے تحریک پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہاں یہ نعرہ بھی لگتا ہے کہ پھر دمادم مست قلندر ہو گا حالانکہ ’’قلندر‘‘ سریانی زبان میں مردِ صالح کو کہتے ہیں اور وہ دمادم مستی نہیں کرتا، ہدایت و آشتی پھیلاتا ہے، خدارا پاکستان کے قدر شناس بنیں تباہی آشنا نہ بنیں۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

لائوڈ اسپیکر ایکٹ کہاں ہے؟

اب ہمیں اس فتوے کی قدر آ گئی ہے جس کی رو سے آلۂمکبر الصوت (لائوڈ اسپیکر) کے استعمال کو حرام قرار دیا گیا تھا، مگر اب لائوڈ اسپیکر کے بغیر مرا شیخ کھانستا بھی نہیں۔ اذان اور خطبے کی اجازت کا قانون پاس ہوا پھر فیل ہو گیا۔ اگر سروے کیا جائے تو پورے شہر کے لئے ایک ہزار لائوڈ اسپیکر کافی ہیں، مگر گلی گلی جب آٹھ آٹھ لائوڈ اسپیکروں سے اذان ہوتی ہے تو اس کے الفاظ سمجھ نہیں آتے کیونکہ اذان سننا کار ثواب ہے بشرطیکہ سمجھ بھی آئے، ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ لائوڈ اسپیکرز پر پابندی لگا دی جائے مگر جو عبادات بالجہر نہیں کی جاتیں وہ تو لائوڈ اسپیکر پر ری لے نہ کی جائیں، یہ ریاکاری کے زمرے میں آ جاتی ہیں۔ جب ڈھائی کروڑ کی آبادی کے لاکھوں اسپیکرز بیک وقت فل والیوم پر چلائے جاتے ہیں تو کچھ سجھائی نہیں دیتا بس ایک ایسا پُرشور ارتعاش فضا میں پیدا ہوتا ہے، حکومت اگر صرف ایک لائوڈ اسپیکر کی اجازت دے تو اذان اور خطبہ سنائی بھی دے سمجھ بھی آئے۔ دوسرے اسلامی ملکوں میں اذان کے علاوہ سب کچھ بند دروازوں کے پیچھے چھوٹے چھوٹے اسپیکرز کے ذریعے ہوتا ہے باہر کوئی آواز نہیں آتی، کیا پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اب تو پھیری والوں نے بھی لائوڈ اسپیکرز لگوا لئے ہیں، گلی گلی شور ہے لائوڈ اسپیکروں کا زور ہے۔ اسلام اعتدال سکھاتا ہے اور یہ نہیں اجازت دیتا کہ کوئی واش روم میں بھی مقدس باتیں سنے کیونکہ ہمارے دین کے اپنے آداب ہیں۔ بہرصورت حکومت پنجاب لائوڈ اسپیکر ایکٹ پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

بس کر، بس کر!

٭ مسلم مخالف قانون، 6بھارتی ریاستوں کا ماننے سے انکار۔

دنیا دیکھے گی کہ یہ قانون بھارت مخالف قانون ثابت ہو گا۔

٭ وزیر اعظم عمران خان:سب اپنے بچوں کو پولیو قطرے پلوائیں۔

بڑی اچھی بات ہے مگر وہ بچوں کو کھلائیں پلائیں کیا؟

٭ لاہور سمیت، ملک کے کئی شہروں میں وکلاء کی ہڑتال۔

خدا نہ کرے کہ ڈاکٹرز کی جانب سے جوابِ آں غزل کی کال آئے۔ انصاف اور دوائی دینے والے دونوں طبقوں کو بھی انصاف اور دوا کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

٭ شیخ رشید:مارچ میں مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے گا۔

خدشہ ہے کہ پیش گوئی کو لوگ دروغ گوئی نہ کہنےلگیں۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭