مشرف غدار ہیں، پھانسی کا حکم

December 18, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

خصوصی عدالت نےپرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) خصوصی عدالت نے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی پر قائم سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی ہے۔

عدالت نے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا، ان پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت جرم ثابت ہوتا ہے۔

دوسری جانب سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور سابق وزیر قانون زاہد حامد کو شریک جرم بنانے کیلئے حکومت کی جانب سے درخواست کی گئی۔

ذرائع کے مطابق 3رکنی بنچ میں سے دو ججز جسٹس وقار احمد سیٹھ اور شاہد کریم نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت جبکہ جسٹس نذراکبر نے اس سے اختلاف کیا۔

منگل کو جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل 3رکنی خصوصی عدالت نے سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سنایا ، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

منگل کو سماعت کے موقع پر پراسیکوٹر علی ضیاءباجوہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے آج تین درخواستیں دائر کی ہیں ، حکومت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کی درخواست دی گئی ہے، حکومت سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانا چاہتی ہے۔

استغاثہ کی جانب سے کہا گیا کہ پرویز مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں کیونکہ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے، جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آگئیں۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ گزر چکا ہے ، جنہیں ملزم بنانا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا شواہد ہیں؟ کیا شریک ملزمان کیخلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں؟ اس پر پراسیکوٹر علی ضیاءباجوہ نے جواب دیا کہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تحقیقات ہو سکتی ہے ، ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے پرویز مشرف کو ایمرجنسی لگانے کا کہا تھا۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ پرویز مشرف کی درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں جس پر فیصلہ بھی ہو چکا ہے ، پرویز مشرف کی شریک ملزمان کے حوالے سے درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے، فرد جرم عائد کی جاچکی ہے جس میں عدالت کی اجازت کے بغیر ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ فاضل عدالت نے ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کیلئے دو ہفتے کی مہلت دی تھی۔

اس پر استغاثہ نے کہا کہ قانون کے مطابق فرد جرم میں ترمیم فیصلے سے پہلے کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ دوران سماعت جسٹس شاہد کریم نے پراسیکوٹر سے کہا کہ اگر آپ نے مزید کسی فرد کو شریک ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کریں، کیا حکومت چاہتی ہے کہ پرویز مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار ہو؟ اگر عدالت نے 3افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کورکمانڈرز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی، جسٹس شاہد کریم نے استفسار کیا کہ سیکریٹری داخلہ کابینہ کی منظوری کے بغیر کیسے چارج شیٹ میں ترمیم کرسکتے ہیں؟ وفاقی حکومت اور کابینہ کی منظوری کہاں ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے ، حکومت کارروائی میں تاخیر نہیں چاہتی تو شریک ملزمان کے خلاف نئی درخواست دے سکتی ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے منیر بھٹی نے کہا کہ سابق پراسیکوٹرز نے عدالت سے حقائق کو چھپایا۔ جسٹس نذر اکبر نے استفسار کیا کہ سابق پراسیکوٹرز کیخلاف حکومت نے کیا کارروائی کی ؟ جسٹس شاہد کریم نے استغاثہ سے استفسار کیا کہ آپ اس چارج شیٹ میں کیوں ترمیم کرنا چاہتے ہیں ، جن لوگوں پر مددگار ہونے کا الزام ہے آپ ان کیخلاف نئی شکایت کیوں نہیں دائر کرتے، آپ کیس میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔

وکیل استغاثہ نے کہا کہ نئی شکایت دائر کرنے سے ٹرائل میں تاخیر ہو سکتی ہے جبکہ چارج شیٹ میں ترمیم سے ٹرائل میں تاخیر نہیں ہو گی ، اگر پہلے مرکزی ملزم کا ٹرائل مکمل ہو جاتا ہے تو جو مددگار تھے ان کا کیا ہو گا؟ اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ جرم میں سہولت کاروں کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے ، اس معاملے میں تمام چیزوں کو سامنے رکھنا ہو گا۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ استغاثہ کو علم ہے کہ شہادت ہوچکی ہے ، ان سہولت کاروں کیخلاف کیا ثبوت ہیں۔

استغاثہ نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ کسی وقت بھی شکایت میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے ، جن کو آپ شامل کرنا چاہتے ہیں ان کیخلاف کیا تحقیقات ہوئیں۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ استغاثہ اپنے حتمی دلائل شروع کرے۔ پراسیکوٹر نے بتایا کہ پرویز مشرف کیخلاف تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان کے بیانات قلمبند نہیں ہوئے ، عدالت میں ایک درخواست تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کی طلبی کی بھی ہے، ایسے ٹرائل پر دلائل کیسے دوں جو آگے چل کر ختم ہوجائے، عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے، پرویز مشرف کا دفعہ 342 کے تحت بیان بھی ریکارڈ نہیں ہو سکا، اس پر جسٹس نذراکبر نے کہا کہ آپ وہ بات کر رہے ہیں جو ملزم کے دلائل ہونے چاہئیں، آپ مرکزی کیس پر دلائل دینا چاہتے ہیں یا نہیں ، اگر آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹرم سے ہٹ جائیں۔

اس پر پراسیکوٹر علی ضیاءباجوہ نے کہا کہ میں دلائل نہیں دینا چاہتا کیونکہ میری تیاری نہیں ہے۔ جسٹس نذراکبر نے ریمارکس دئیے کہ پھر آپ بیٹھ جائیں اور وکیل صفائی کو بولنے کا موقع دیں۔ پراسیکوٹر علی ضیاءباجوہ نے کہا کہ میری اور بھی درخواستیں ہیں وہ تو سنیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے متعلق بھی درخواست ہے۔ جسٹس نذر محمد اکبر نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پابند نہیں ہیں ، ہمارے سامنے صرف سپریم کورٹ کا حکم ہے ، اسکے تحت کارروائی چلانی ہے۔ اس موقع پر ملزم پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر اور رضا بشیر پیش ہوئے۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ سلمان صدر صرف رضا بشیر کی معاونت کرسکتے ہیں، کیس کی سماعت کے دوران سلمان صفدر روسٹرم پر آئے تو جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں آپ کی ضرورت نہیں، اس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آپ نہ استغاثہ کو سن رہے ہیں اورنہ دفاع کو، پھر کیسے کیس کو چلائیں گے، جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ عدالتی مفرور شخص کے وکیل کو عدالت میں بولنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں ضد نہ کریں۔ بعد ازاں رضا بشیر ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ زیر دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی ہے، پرویز مشرف کو منصفانہ ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے، اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ سپریم کورٹ 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے ، پرویز مشرف چھ مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے ہیں۔

فاضل جج نے ریمارکس دئیے کہ استغاثہ اور آپ دونوں ہی مشرف کا دفاع کررہے ہیں، رضا بشیر ایڈووکیٹ نے کہا کہ پرویز مشرف کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ پیش ہو سکیں، لہٰذا دفعہ 342 کے بیان کے بغیر مشرف کا دفاع کیسے کروں؟ اس پر جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ آپ دفاع نہیں کرسکتے اس کا مطلب ہے آپکے دلائل مکمل ہو گئے ہیں۔