سوئی میں سوئی گیس کی قلت؟

January 08, 2020

کسی بھی علاقے کے وسائل پر پہلا حق وہاں کے مقامی باشندوں کا تسلیم کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نظام میں موجود بعض خامیوں اور مضبوط جاگیر دارانہ و استحصالی کلچر کے باعث ایسا نہیں ہوتا۔ پچاس کی دہائی میں بلوچستان کے مقام سوئی سے دریافت ہونے والی قدرتی گیس ملک کے دیگر حصوں میں تو فراہم کی جارہی ہے لیکن چھ عشرے بیت جانے کے باوجود سوئی سمیت صوبے کے بیشتر علاقے اِس نعمت سے تاحال محروم ہیں اور جہاں موجود بھی ہے وہاں گیس کی لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کی شکایات ہیں۔ رواں موسم سرما میں بلوچستان میں گیس بحران اتنی شدت اختیار کر گیا ہے کہ ایوانِ بالا میں بلوچستان کے اراکینِ سینیٹ نے پٹرولیم کمیٹی کے اجلاس سے احتجاجاً واک آئوٹ کردیا۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں وفاقی حکومت اور سوئی سدرن کمپنی کو سوئی گیس فیلڈ کے ملحقہ علاقوں میں گیس کی زیرو لوڈشیڈنگ یقینی بنانے پر زور دیا گیا جبکہ نوکنڈی، دالبندین اور چاغی میں ایل پی جی ائیر مکس پلانٹ کی تعمیر میں غیرمعمولی تاخیر کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا جس پر پانچ سینیٹر ایس ایس جی سی ایل پر سینیٹ کمیٹی کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ اِس موقع پر ایک سینیٹر کی جانب سے گیس کی قلت دور نہ ہونے پر استعفیٰ دینے کے ساتھ ساتھ گیس کمپنی حکام کیخلاف سخت قدم اُٹھانے کے بیان سے معاملے کی سنگینی اور بلوچ عوام میں پائی جانے والی سخت مایوسی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ضروری ہو گیا ہے کہ مرکزی حکومت اِس معاملے میں حائل رکاوٹوں اور پلانٹ کی تعمیر کے سلسلے میں اراکینِ سینیٹ کے گیس کمپنی حکام کے رویے کی بابت ظاہر کئے گئے تحفظات کا بھی جائزہ لے۔ اس باب میں مزید کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے۔