اسلامی نظریاتی کونسل اور اقلیتیں

January 09, 2020

اسلامی نظریاتی کونسل نے جبری مذہب تبدیلی، بچوں سے زیادتی اور بلوچستان یونیورسٹی کے وڈیو لیک پر بحث مکمل کر لی ہے۔ کونسل کا اجلاس چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیرِ صدارت گزشتہ روز بھی جاری رہا۔ کونسل کے اکثریتی ارکان نے اتفاق کیا کہ آئندہ اجلاس میں اقلیتی برادری کے مذہبی رہنمائوں کو بلا کر مشاورت میں شامل کیا جائے۔ شرکا کی متفقہ رائے تھی کہ اسلام میں کسی قسم کا کوئی جبر نہیں، یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ جو لوگ مذہب تبدیل کرنا چاہیں اُن کیلئے وزارتِ مذہبی امور کے تحت ایک پرفارما تیار کرنا چاہئے۔ تبدیلی مذہب کیلئے یہ پرفارما مقامی عدالت میں جمع کرایا جائیگا، اجلاس میں بچوں سے زیادتی کے معاملات پر سیر حاصل بحث کے بعد اِس حوالے سے سخت قوانین کی سفارش کر دی۔ اِسلامی نظریاتی کونسل میں زیرِ بحث آنے والے معاملات نظریاتی و اخلاقی ہیں۔ بچوں سے زیادتی اور دیگر ناشائستہ حرکات کو مغربی طرزِ عمل اور کم علمی کے کھاتے میں ڈالا گیا ہے۔ بچوں سے زیادتی کے حوالے سے سخت ترین اقدامات بجا، اُن کا دائرہ کار وڈیو لیکس تک بھی بڑھانا چاہئے۔ اجلاس کی اہم ترین بات تبدیلیٔ مذہب کے حوالے سے ہے، ایک عرصہ سے سندھ اور ملک کے چند دیگر علاقوں سے جبراً تبدیلی مذہب کی خبریں آ رہی تھیں۔ ہر ذی شعور جانتا ہے ہندو برادری کی طرف سے زیادہ شکایات سامنے آئیں اور متعدد ہندو ملک چھوڑنے پر بھی مجبور ہو گئے۔ یہ طرزِ عمل اِس لئے بھی سراسر غلط تھا اور ہے کہ اسلام میں جبر نہیں، کوئی کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے اِن شکایات کے خاتمے کیلئے شروع کئے جانے والے اقدامات احسن ہیں، امید ہے کہ یہ اقدامات جبری تبدیلیٔ مذہب کی راہ روکے گی، اسلامی ریاست کا تو حسن ہی یہ ہے کہ اِس میں ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے عقائد پر عمل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اِس معاملے کا کوئی موثر حل نکالے تاکہ کوئی بھی پاکستان پر مذہبی آزادیوں پر قدغن کا الزام نہ عائد کر سکے۔