کونوکارپس conocarpus) 80) فیصد یہی جھاڑیاں درختوں کے نام پر نظر آتی ہیں

January 16, 2020

مہک

کراچی کے جھاڑی نما درخت کونوکارپس کاٹ دیے جائیں یا نہیں؟ اب یہ بحث ماہرین سے نکل کر عام لوگوں تک پھیل چکی ہے۔ ہر شخص اپنے نکتہءِ نظر کے حق میں صحیح یا غلط دلائل ضرور رکھتا ہے۔

کراچی میں شجرکاری اب ایک گرما گرم بحث کا موضوع بن چکی ہے اور کونوکارپس کے درخت اس بحث کا بنیادی نکتہ ہیں۔ کچھ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ نئی شجرکاری سے پہلے شہر بھر میں موجود تمام کونوکارپس کے درخت کاٹ دیے جائیں تو کچھ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ کراچی میں نیم کے پودے لگائیں جائیں، جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سوہانجنا کے درخت کراچی کے لیے بہترین ہیں کیونکہ ان کی طبی طور پر بھی بہت اہمیت ہے۔پاکستان کی ایک اور جانی پہچانی شخصیت توفیق پاشاموراج جن کا شجرکاری اور باغ بانی کے حوالے سے کام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، ان کا کونوکارپس کے حوالے سے کہنا ہے کہ اس درخت کے حوالے سے جو باتیں پھیلی ہوئی ہیں، ان میں مبالغہ زیادہ ہے۔ اللہ تعالی نے کوئی شے ایسی تخلیق نہیں کی ہے، جس کا انسانیت کو کوئی فائدہ نہ ہو۔

کونوکارپس بھی ایسی ہی تخلیق ہے، کیونکہ اس کے بھی فوائد ہیں بشرط یہ کہ اسے اس کی صحیح جگہ لگایا جائے، مگر اس کی شجرکاری کے لیے کراچی ہرگز مناسب جگہ نہیں ہے۔یہ ایسی زمینوں کے لیے فائدہ مند ہے، جہاں زیرِ زمین پانی زیادہ ہو۔ یہ گھروں اور عمارتوں کے قریب اگانے والا پودا نہیں ہے کیونکہ اس کی جڑیں سیوریج کی لائنوں اور عمارات کی بنیادوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔یہ سیوریج لائنوں کو تباہ کردیتا ہے، لہٰذا آج نہیں تو کل، اسے ہم کاٹنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

آخر کراچی میں کون سے درخت لگائے جائیں اور کونوکارپس کا کیا کیا جائے؟ اس حوالے سے کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمنٹل اسٹڈیز سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال شمس صاحب کا کہنا تھا کہ’’ کراچی بہت بڑا شہر ہے اور بہت سے جغرافیائی زون میں منقسم ہے، کسی ایک پودے کو پورے شہر کے لیے تجویز نہیں کرسکتے۔‘‘

کونوکارپس کی شجرکاری 90ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہوئی اور اس کی شجرکاری کو عروج 2005ء کے بعد ملا جب اس وقت کے میئر کراچی مصطفی کمال نے کراچی میں اس کو پھیلانے کا فیصلہ کیا۔ بس پھر کیا تھا راتوں رات شہر کو سرسبز بنانے کے جنون نے اس بدیسی جھاڑی کو شہر بھر میں متعارف کروا دیا۔ایک اندازے کے مطابق شہر بھر میں لاکھوں پودے لگائے گئے اور آج کراچی میں 80 فیصد یہی جھاڑیاں درختوں کے نام پر نظر آتی ہیں۔

جن علاقوں میں پانی نہیں ہے وہاں ایسے پودے لگائے جائیں جو خشک سالی کو برداشت کرسکیں۔ ایسی جگہوں پر چھوٹے پتوں والے پودے بہتر رہتے ہیں کیونکہ انہیں زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ سمندری علاقے ڈیفنس اور کلفٹن جہاں نمک زیادہ ہے وہاں نمک برداشت کرنے والے پودے لگانے ہوں گے۔ جہاں پانی موجود ہے وہاں ساحلوں پر ناریل لگایا جاسکتا ہے کیونکہ ناریل کو زیادہ پانی چاہیے، ایسی جگہوں پر ناریل کے ساتھ ساتھ چیکو بھی لگ سکتے ہیں۔

بہت سے درخت کراچی میں لگ سکتے ہیں، جن میں سوہانجنا، املتاس، گل مہر، برنا، شیشم، لسوڑہ، گوندنی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ کراچی میں اس وقت 70 سے 75 کے قریب درختوں کی انواع موجود ہیں اور پورے شہر میں درختوں کی تعداد 25 سے 30 ہزار ہے۔ اسے اگر بہت زیادہ بھی کرلیا جائے تو یہ تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگی۔

کراچی میں بہت سے علاقے درختوں سے خالی ہیں وہاں پودے لگائے جاسکتے ہیں۔ یہ ضرور خیال رہے کہ غیر مقامی اور ایسی حملہ آور انواع (Invasive) نہ ہو جو مقامی انواع پر حاوی آجائے۔ اس کی مثال کیکر کے درخت سے دی جاسکتی ہے۔ 18ویں صدی میں انگریزوں نے کیکر کو میکسیکو سے لاکر لگایا تھا، اس سے پہلے برِصغیر پاک و ہند میں کیکر موجود نہیں تھا۔ کیکر کی شجرکاری 1879ء میں کی گئی تھی اور ان 200 سالوں میں کیکر بہت پھیل چکا ہے۔

عمارتی لکڑی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیشِ نظر 1989ء میں چین سے پلونیا کے بیج منگوائے گئے، تاکہ قیمتی لکڑی حاصل کی جاسکے۔ کچھ بدیسی پودے، ایسے ہیں جو اپنے ٹھکانوں کی بہ نسبت نئی آماجگاہ پر زیادہ کامیاب ثابت ہوئے ہیں ان میں آسٹریلیا کا یوکلپٹس یعنی سفیدہ ہے جو جنوبی ایشیاء میں زیادہ کامیابی سے پھلا پھولا۔ ابتداء میں اس کی بہت سی اقسام کو آزمایا گیا اور تمام تر تجربات کے بعد پھر 2 سے 3 اقسام پر ہی انحصار کرلیا گیا۔

مسکٹ یا دیوی جسے ولایتی کیکر بھی کہتے ہیں بنیادی طور پر امریکن پودا ہے۔ باقاعدہ طور پر پاکستان میں اس کی شجرکاری کا آغاز 50ء کی دہائی میں ہوا۔ کانٹے دار ببول کی اقسام کو سوڈان اور آسٹریلیا سے منگوا کر آزمایا گیا۔

حکومتی سطح کی بات کی جائے یا انفرادی سطح کی، سب کو مل کر جتنے ہوسکیں درخت لگانے چاہیے، کیونکہ آنے والے خطروں سے بچنے کا واحد ذریعہ اب یہی رہ گیا ہے۔ اس حوالے سے خاص خیال یہ رکھنا چاہیے کہ صرف اور صرف مقامی انواع کا انتخاب ہونا چاہیے۔ مقامی انواع میں املی، پیپل، نیم، املتاس، سوہانجنا، چمپا، برگد، لیگنم، آم، امرود، جنگل جلیبی، چیکو، پپیتا اور گل مہر کی تینوں اقسام کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔