بالائی طبقہ!

March 09, 2013

مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ اکثر بالائی طبقے کا ذکر کرتے ہیں یہ بالائی طبقہ آخر چیز کیا ہے۔ جس نے ہم سب کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ میرے خیال میں سوال کنندہ کو علم ہے کہ بالائی طبقہ کیا ہوتا ہے۔ اگر انہیں واقعی علم نہیں تو اِن کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ طبقہ وہ ہے جو دودھ پر سے ”بالائی“ اتار کر کھا جاتا ہے اور باقی جو ”پھوک“ بچتا ہے اس میں چھپڑ کا پانی ملا کر اٹھارہ کروڑ عوام میں تقسیم کر دیتا ہے تاہم یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میرا اشارہ گجروں کی طرف نہیں کیونکہ گجر تو بڑے بھلے مانس لوگ ہوتے ہیں وہ دودھ میں پانی ملاتے ہیں تو گاہکوں کو بتا کر ملاتے ہیں، فیر اپنی بڑائی کا دعویٰ بھی نہیں کرتے، بلکہ خود کو مورکھ سمجھتے ہیں اور اپنے اس گناہ کی تلافی کے لئے ہر سال داتا صاحبؒ کے عرس پر زائرین کو خالص دودھ مفت سپلائی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس بالائی طبقہ دودھ پر سے بالائی اتارنے اور بچے کھچے دودھ نما چیز میں چھپڑ کا پانی ملانے کے باوجود خود کو ملک و قوم کا محسن بھی قرار دیتا ہے معزز بن کر اعلیٰ مسند پر فائز بھی ہوتا ہے حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ بھی بانٹتا ہے اور فراعنہ مصر کے بعد یہ واحد طبقہ ہے جس کے افراد کو یقین ہے کہ انہوں نے مرنا نہیں، اور خدا کے حضور بھی پیش نہیں ہونا، یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کے افراد انسانوں سے خدا کے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ بہت سے انسان تو انہیں خدا سمجھ بھی بیٹھتے ہیں، چنانچہ ان کے قصیدے لکھتے ہیں اور ان کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں لیکن جب سجدے سے سر اٹھاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا ”خدا“ تو مر چکا ہے۔ پھر انہیں افسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک فانی انسان کے قصیدے کیوں لکھے۔ ان کی تو ساری مناجاتیں ضائع چلی گئیں، مگر حیرت ہے کہ اس کے باوجود کسی نئے خدا کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور ازسر نو مناجات کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔
بالائی طبقے کے افراد کی موت کے حوالے سے جو تحقیق ہوئی ہے اس کے مطابق ان کی موت بھی زیادہ مقدار میں بالائی کھانے سے ہوتی ہے جب تک یہ تھوڑا تھوڑا کھاتے رہتے ہیں یہ چاق و چوبند رہتے ہیں اور اپنی اپنی ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب بھی رہتے ہیں کہ ملک و قوم کی بقاءکے لئے ان کی بالادستی ضروری ہے لیکن جب یہ دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کرتے ہیں اور عوام نان جویں کے لئے بھی ترسنے لگتے ہیں تو ایک طرف عوام میں ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے اور دوسری طرف زیادہ تعداد میں بالائی کھانے سے ان کے جسم اور دماغ پر اتنی چربی چڑھ جاتی ہے کہ وہ عوام کو بے وقوف بنانے والے فیصلے عقلمندی سے نہیں کر پاتے جس کے نتیجے میں ان کے خلاف بغاوت ہو جاتی ہے، اور تخت کی جگہ تختہ ان کا مقدر بنتا ہے، چنانچہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ روس، چین، ایران، فرانس اور دوسرے بہت سے ملکوں میں بالائی طبقوں کی موت زیادہ بالائی کھانے کی وجہ سے ہوئی، ان واقعات کے نتیجے میں بالائی طبقہ پر دنیا کی بے ثباتی کا اس درجہ اثر ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے بچے کھچے دن قوم کی بچی کھچی بالائی پر بھی ہاتھ صاف کرنے میں بسر کر دیتے ہیں، کہ اگر مرنا ہی ہے تو کیوں نہ بالائی کھاتے ہوئے مرا جائے، یہ سوچ ان کی کم فہمی کا نتیجہ ہے کیونکہ عوام کے بیدار ہونے پر یورپ کے بہت سے ممالک کے بالائی طبقے نے بالائی میں سے عوام کو بھی حصہ دینا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں عوام بھی موت کے منہ میں جانے سے بچ گئے اور یہ طبقہ بھی اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گیا، مگر پسماندہ ممالک کا بالائی طبقہ بھی ذہنی طور پر پسماندہ ہوتا ہے چنانچہ آخری گھنٹی بجنے پر بھی وہ ہوش میں نہیں آتا جس کا خمیازہ اسے بہرحال بھگتنا پڑتا ہے!
بالائی طبقے کے بارے میں بتانے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں کچھ عرصے سے اس طبقہ کے افراد کو عوامی ثابت کرنے کے لئے نچلے طبقے کے چند افراد کو بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں اس نچلے طبقے کے افراد اپنے طبقے کے مفادات کی حفاظت کی بجائے اپنے آقاﺅں کے مفادات کے محافظ بن جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ یقین دلانے میں لگے رہتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں بالائی طبقہ ان کے حقوق پر چھاپہ نہیں مار سکتا، کچھ عرصہ تک ان نمائشی پہلوانوں کی حکمت عملی بہت کامیاب رہتی ہے یعنی عوام انہیں اپنا سمجھتے رہتے ہیں لیکن ایک وقت آتا ہے کہ ان کٹھ پتلیوں کی حقیقت عوام پر واضح ہو جاتی ہے، مگر اس وقت تک نچلے طبقے کے یہ افراد بنفس نفیس بالائی طبقے میں تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں اور یوں بچارے عوام صرف دانت کچکچا کر رہ جاتے ہیں، یوں تو متذکرہ طبقے کے بارے میں بتانے کی اور بہت سی باتیں ہیں لیکن طوالت سے بچنے کے لئے آخر میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ بالائی طبقہ کسی ایک طبقے کا نام نہیں بلکہ اس میں بہت سے مفاداتی اور طاقتور گروپ شامل ہوتے ہیں، اس کے متنوع ہونے کا اندازہ آپ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ بالائی طبقہ بیک وقت چوروں اور ”سادھوں“ پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے اور یہ ان کی بقاءکے لئے ضروری ہے، تاہم واضح رہے بقا صرف خدا کی ذات کو ہے، باقی سب کو فنا ہونا ہے اور ایمان والوں کو اس میں کوئی شک نہیں۔