جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کی یاد میں تعزیتی ریفرنس

January 25, 2020

جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد

جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم عظیم انسان تھے۔ ان جیسے لوگ معاشرے میںناپید ہوتے جارہے ہیں۔ وہ باہمت تھے جو کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ وہ مختلف مناصب پر رہے اور ضمیر کی آواز پر کام کرتے رہے۔ وہ ہم میں نہیںلیکن ان کی اقدار موجود ہیں۔ وہ سب کے لیے مشعل راہ ہیںاور ان کے قول و فعل کو آگے لے کر چلنا چاہیے۔

یہ تاثرات سیاسی و سماجی شخصیات نے جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کی یاد میںانسٹیٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ سوشل ریسرچ اور سہیل یونیورسٹی کے تحت تعزیتی ریفرنس ’’آئین کی بالادستی اور جسٹس فخرالدین جی ابراہیم‘‘ سے خطاب کے دوران بیان کیے۔

مقررین میںسینیٹر رضا ربانی، ناظم ایف حاجی، جنرل (ر) معین الدین حیدر، اقبال علوی، ڈاکٹر ہارون، کرامت علی، زاہدہ حنا و دیگر شامل تھے۔

ریفرنس کی نظامت انسٹیٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کی۔ اس موقع پر سہیل یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر طارق سہیل، رکن بورڈ بلند سہیل، جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کے صاحبزادے زاہد ایف ابراہیم و دیگر بھی موجود تھے۔

سینیٹر رضا ربانی

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ فخرالدین جی ابراہیم میرے استاد تھے، وہ مختلف مناصب پر رہے اور ضمیر کی آواز کے تحت کام کرتے رہے۔ وہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیںان کے قول و فعل کو آگے لے کر چلنا چاہیے لیکن اس دوران سوسائٹی کا موازنہ کرنا چاہیے۔ ان کے دور میںمعاشرہ زیادہ جمہوری، مہذب اور لبرل تھا۔ آج کے معاشرے میںگھٹن ہے جو میںنے اپنی زندگی میںنہیںدیکھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایوب اور یحییٰکے خلاف تحاریک چلیںلیکن اس وقت دشمن واضح تھا، آج ایسی ہائبرڈ جنگ ہے، جس میںدشمن ہے بھی اور کھل کر سامنے بھی نہیںآتا۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ دھیرے دھیرے وقت کا دھارا پاکستان کو بھی مصر جیسا ماڈل بنانے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ پہلے تمام اداروں کو جانتے بوجھتے کمزور کیا گیا اب جو ایک ادارہ بچ رہا تھا اس پر بھی وار کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان کے بارے میںریاست نے کبھی اچھی رائے بننے ہی نہیںدی۔ اب احتساب کی بات کی جارہی ہے تو احتساب یقیناً ہوناچاہیے لیکن سب کے لیے ہونا چاہیے کسی مقدس گائے کو نہیںچھوڑنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان کو بے توقیر کر دیا گیا ہے، افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کا وزیر خارجہ واشنگٹن میںبیٹھ کر پریس کانفرنس کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ پاکستان کا طالبان کو مذاکرات کے ٹیبل پر لانے کے لیے کیا کردار رہا۔ اس کا ملک کی سیکیورٹی اور ہماری نسلوںاور مستقبل پرجو اثر پڑے گا اس کو سوچا ہی نہیںجارہا۔ اگر بیان دینا تھا تو اپنی سرزمین پر بیٹھ کر دیتے۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ امریکا کے نزدیک اپنے مفادات ہیں، ہمیںبھی اپنے مفادات سامنے رکھنے چاہئیں۔ وزیر اعظم نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا کہ ہماری پہلی ترجیحافغانستان ہے۔ اگرایسا ہے تو کشمیر اور کشمیریوں کے لیے کیا معاہدہ ہوگا؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہی صورتحال تھی تو عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، ہم بھیٹر بکریاںیا غلام نہیںہیں۔ قائد اعظم نے ہماری خود مختاری کی بات کی اور بڑے معاشی تحفظ کی بات کی۔ آج ہماری معیشت عالمی سامراج عالمی بینک کے ہاتھوں گروی ہے، ایسی صورت میں ایسی گھٹن ہے اور اس حال میں وہ آئیکون جنہوں نے اصولوں کے تحت زندگی گزاری انہیںیاد کرکے ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔

ناظم ایف حاجی نے کہا کہ فخرو بھائی کی جذباتی خواہش تھی کہ وہ ملک کی خدمت کریں، اس لیے انہوںنے چیف الیکشن کمشنر کا عہد ہ قبول کیا وہ بہت زیادہ فعال اور سرگرم تھے، انہوںنے ملک کی بہت خدمت کی۔

جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا کہ فخرالدین جی ابراہیم پاکستان کے لیے مشعل راہ ہیں۔ وہ عظیم انسان تھے۔ خواہش ہے کہ ان جیسے بلند خیالات اور حوصلہ ہمیںبھی ملے۔

اقبال علوی نے کہا کہ وہ ہمارے درمیان نہیںلیکن ان کی اقدار ہمارے درمیان آج بھی موجود ہیں۔

ڈاکٹر ہارون نے کہا کہ دوست اور دشمن انہیںفخرو بھائی پکارتے تھے۔ ان کی شہرت یہ تھی کہ وہ مستعفی ہوجاتے تھے لیکن جب الیکشن کمشنر بنے تو دوستوں نے ان سے کہا کہ اب آپ نے استعفیٰ نہیںدینا۔

کرامت علی نے کہا کہ وہ سب سے پہلے طالبعلموںکے کیسز لیتے تھے۔ میںنے زندگی میںبہت کم لوگ دیکھے ہیںجو بااصول ہوں اور اصولوںپر قائم رہیں۔ ایسے لوگ معاشرے میںبہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ وہ باہمت انسان تھے جو کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔

زاہدہ حنا نے کہا کہ فخرو بھائی نیک نامی کی دولت سے مالا مال تھے۔ ان کے جانے سے ہم غریب ہوگئے۔

ریفرنس کے اختتام پر رکن بورڈ آف گورنرز بلند سہیل نے اظہار تشکر کیا۔