اُداس ڈل جھیل کے کنارے

February 02, 2020

ستم کی لاکھوں کہانیاں ہیں

عزیمتوں کی نشانیاں ہیں

جنہیں فرشتے نہ دیکھ پائے

دریدہ آنچل کی دھجیاں ہیں

جو رب سے ملنے کی منتظر ہیں

کفن میں لپٹی جوانیاں ہیں

شکست ِدل بادباں بنی ہے

پرانے تختوں کی کشتیاں ہیں

جو قہقہوں کو ترس گئی ہیں

غموں سے آباد بستیاں ہیں

پرندے حیرت سے دیکھتے ہیں

بلکتے بچوں کی سِسکیاں ہیں

کٹورے خالی رکھے ہوئے ہیں

کہ صحن مسجد میں برچھیاں ہیں

فضا میں بارود کا دھواں ہے

کرخت چہرے ہیں ،وردیاں ہیں

زمانہ فریاد رس بنے گا

اندھیرا ظلمات کا چھٹے گا

کوئی تو اُمید کی کرن ہو

یہ ظلم کب تک یونہی رہے گا

کہ برف کی چوٹیوں کے نیچے

سلگتے جذبوں کی بھٹیاں ہیں

اُداس ڈل جھیل کے کنارے