بریگزٹ…آخروہ گھڑی آپہنچی…!

January 29, 2020

خیال تازہ…شہزادعلی
گورنمنٹ کا بل ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز کے مراحل اور رائل رضامندی حاصل کرچکا، دی بریگزٹ ۔ جب یوکے ای یو چھوڑ دے گا۔ آج سے دو دن بعد یعنی 31جنوری کی رات کو یہ انخلاء ہوجائے گا۔ اب تو وزیراعظم بورس جانسن نے یورپ سے انخلاء کے معاہدہ پر ڈاؤننگ سٹریٹ میں اپنے دستخط بھی ثبت کر دیے ہیں ۔ وزیراعظم نے ان لمحات کو یادگار قرار دیا ہے ساتھ ہی اس امید اور یقین کا اظہار بھی کیا ہے کہ اب یہ کئی برسوں کی تقسیم اور آرگومنٹ ، تکرار کا بھی خاتمہ کر دے گی ، اور یہ کہ اس سے 2016 میں ریفرنڈم کیے گئے وعدہ کو ڈلیور کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہیں برٹش لوگوں کے جمہوری مینڈیٹ کو عزت بخشنے کا موقع ملا ہے ۔ قبل ازیں ، یورپی لیڈرز نے اس دستاویز پر برسلز میں سائن کیے اور پھر اسے ٹرین کے ذریعے لندن ٹرانسپورٹ کیا جب کہ یورپی پارلیمنٹ اس اگریمنٹ پر آج 29 جنوری کو ووٹ ڈالے گی، ڈاؤننگ سٹریٹ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ وِزیراعظم نے اس بل پر پارکر فائونٹین پین (کالم نگار کا موسٹ فیورٹ پین ) سے دستخط کیے جو 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کی اس طرح کے اہم دستاویزات پر دستخط کرنے کی روایت ہے۔ بی بی سی اور جو بھی بریگزٹ بابت ٹویسٹ اینڈ ٹرن لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال سے ہم آہنگ نہیں رکھ سکے ان کو یہ جاننے کی ضرورت ہے : 31 جنوری 2020 کی رات جب لندن وقت کے مطلابق گھڑی کی سوئی 11 بجے پر پہنچے گی اس کے بعد برطانیہ یورپی یونین کا ممبر نہیں رہے گا۔ دی ٹائمز ، نے بریگزٹ پر لکھا تھا کہ برطانیہ کو ملکی تاریخ کے سب سے پیچیدہ اور سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ایک ایسا پراسیس ، جس کے لیے سینکڑوں مزاکرات کار درکار ہیں ، اس بلاک میں چادائیوں سے زائد مدت تک رہنے کے بعد ایک ریفرنڈم کے نتیجہ کے طور پر اس علیحدگی کا فیصلہ ہوا جس کے نتائج کیا برآمد ہوں گے اب واضح ہو رہے ہیں۔ بریگزٹ عمل پر نظر دوڑانے سے یہ تفصیل سامنے آتی ہے کہ 2016 میں یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے کا آغاز ہوا تھا جب عوام نے ریفرنڈم کے ذریعے یونین سے علیحدگی کی منظوری دی تھی۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق 2016 میں ہونے والے اس ریفرنڈم میں اگرچہ 52 فی صد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں رائے دی تھی۔ جبکہ 48 فیصد نے ای یو کے اندر رہنے کو اپنی ترجیح قرار دیا تھا۔ لیکن اس رائے کا احترام کیا گیا اور اس ریفرنڈم کے بعد حکمران کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے اُس وقت کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے عہدہ جلیلہ سے استعفیٰ دے دیا تھا وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ خود یورپی یونین میں رہنے کے خواہشمند تھے۔ان کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی ہی ممبر پارلیمنٹ تھریسامے نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا مگر بریگزٹ کا ایشو ایک لایخل شکل اختیار کرگیا اور پہ در پہ اس اہم قومی معاملے پر ناکامی کی صورت میں انہوں نے بھی بادل ناخواستہ وزارت عظمی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جس کے بعد بورس جانسن برطانیہ کے وزیرِ اعظم بنے تھے۔انہیں بھی پارلیمان میں مسلسل ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جس پر اگرچہ بریگزٹ بابت تو کنزرویٹو کی اصابت اور صلاحیت پر سوال اٹھ رہے تھے مگر اپوزیشن کی بڑی جماعت کی بھی اس مسئلہ پر غالبا” گو مگو کی پالیسی اور متفرق مسائل پر جیرمی کوربن کے انقلابی نظریات جن کو بالادست طبقات کو قبول کرنا ناممکن تھا ان عوامل کو بھانپ کر بجائے مستعفی ہونے کے بورس جانسن نے نئے الیکش کو اپنے اور اپنی جماعت کے لیے بہتر خیال کیا انہیں غالبا” یہ ادراک تھا کہ لیبر پارٹی کو شکست دینے کا شاید یہ سب سے بہتر موقع ہے کہ پارٹی قبل ازوقت انتخابات کے لیے ہر گز تیار نہ تھی مگر بورس جانسن کی کامیاب حکمت عملی کے سامنے جیریمی کوربائین کے لیے راہ فرار نہ رہی اور انہیں چار و نا چار قبل ازوقت انتخابات پر رضامندی ظاہر کرنا پڑی اس تناظر میں پارلیمنٹ نے قبل از وقت الیکشنsnap Election کرانے کی منظوری دی تھی۔ لوگوں کو یہ باور کرایا گیا کہ کسی پارٹی کی مضبوط حکومت اس مسئلہ پر قائم تعطل کو شاید اکثریت ملنے کی صورت میں دور کر سکے ، اور شومئی قسمت گزشتہ سال دسمبر میں ہونے والے الیکشن میں بورس جانسن کی قیادت میں کنزرویٹو پارٹی نے 365 نشستیں حاصل کر کے شاندار کامیابی حاصل کر لی جب کہ قسمت کی ستم ظریفی کہ لیبر پارٹی صرف 202 نشستوں پر کامیاب ہو سکی ۔ اور مین اپوزیشن لیبر پارٹی سے وابستہ کئی طبقات کی امیدیں بر آور ثابت نہ ہو پائیں، ساتھ ہی یہ ٹریجڈی بھی ہوئی کہ لب ڈیم کے ایک قدرے مضبوط پارٹی کے ابھرنے کے متعلق تجزیے اور جائزے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اور اب نئے انتخابات کے بعد کنزرویٹو پارٹی ایوان میں پھر موجود ہی نہیں بلکہ اکثریت کے ساتھ موجود ہے۔ جب کہ بورس جانسن کی لیڈرشپ میں کنزرویٹو پارٹی کو ملنے والی کامیابی 1987 میں آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچر کو ملنے والی کامیابی کے بعد سب سے واضح کامیابی قرار دی گئی ہے۔ جب کہ اس سے پہلے اس کے پاس 650 کے ایوان میں 317 نشستیں حاصل تھیں جب کہ سادہ اکثریت کے لیے اس کو 326 ارکان کی ضرورت تھی۔ مگر اب صورت حال بدل چکی ہے۔جس باعث اس مرتبہ یورپی یونین سے الگ ہونے کے حوالے سے ہاؤس آف کامنز میں پیش کیے گئے بل کی حمایت میں 330 ووٹ آئے جب کہ مخالفت میں ڈر 231 ارکان نے ووٹ ڈالے۔ اور یوں بورس جانسن کے پیش کردہ بل کو کثرت رائے سے منظور کیا گیا۔ پھر یہ بل ہاؤس آف لارڈز میں پیش کیا گیا جہاں منظوری کے بعد اسے قانون کا درجہ حاصل ہوگیا اور یوں وہ گنجلک مسئلہ جو مختصر مدت کے دوران دو وزرائے اعظم کی سبکدوشی کے باوجود شدید سیاسی بحران کا شکار رہا اب کسی کنارے لگ رہاہے ۔ تاہم اس کے بعد برطانیہ گیارہ ماہ کے ایک ٹرانزیشن پیریڈ میں داخل ہوجائے گا اس عرصہ میں یورپ کے ساتھ نئے تعلقات کار کی نوعیت طے ہوگی۔جس کا مطلب ای یو سنگل مارکیٹ میں رہنا، کسٹم یونین میں بھی رہنا اور ان کے بجٹ میں ادائیگی کرنا ہے جب کہ قوم کو اب بجا طور پر یہ توقعات بھی ہیں کہ وزیر اعظم بورس جانسن جنہوں نے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد یہ یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ہی ڈیڈ لاک کے خاتمہ کا وردہ ہی نہیں کیا بلکہ صحت، تعلیم اور پولیس کے لیے زیادہ رقوم مختص کرنے کے وعدے اور یقین دہانیاں بھی کی تھیں۔ اب ان اعلانات پر بھی عمل در آمد کیا جائے ۔ اب عام لوگوں کو توقع ہے کہ اب حکومت شاید پبلک سروسز اور دیگر رکے ہوئے کئی طرح کے حکومتی امور پر دلجمعی سے توجہ دے سکے اور ٹھپ شدہ گورننمٹ بزنسز پھر سے شروع ہوسکے گے تاہم عوام کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو بریگزٹ نتائج کو محسوس کر کے اور آنے والے حالات کا اندازہ لگا کر کئی طرح کے وسوسوں میں بھی مبتلا ہے ۔