کمزور طبقات کیلئے فلم اور ڈرامہ کی اہمیت

January 30, 2020

چند برس قبل جب انڈین سنیما کی سنچری منائی جا رہی تھی تو درویش کی یہ تمنا تھی کہ وہ شعوری بیداری کے حوالے سے سینما کی خدمات کا تقابلی جائزہ بمقابلہ مندر یا چرچ پیش کرے کیونکہ ہمارے روایتی سماج میں نیکی یا اچھائی پھیلانے کا محور بالعموم آخر الذکر ادارے کو خیال کیا جاتا ہے اور سینما کے متعلق آج اکیسویں صدی میں بھی ہمارا روایتی سماج ایک منفی نقطہ نظر کا حامل ہے جسے لہو و لعب، لچرپن، گناہ یا برائی پھیلانے کا منبع، آلۂ کار یا ذریعہ بتا دیا جاتا ہے جبکہ اِس کے بالمقابل مندر یا چرچ گویا نیکی و پارسائی کی علامت ہیں اور اُن میں کام کرنے والے برگزیدہ و قابلِ عزت و احترام لوگ ہیں۔

جس طرح ہم ہر منظر نامے کو سپیدی و سیاہی میں تقسیم نہیں کر سکتے بہت سے گرے ایریاز بھی ہوتے ہیں، اسی طرح کسی مخصوص شعبۂ حیات کے متعلق ہم نیکی و بدی کے ٹھپے نہیں لگا سکتے۔

سفید، کالی یا دھبے دار بھیڑیں ہر ریوڑ میں ہوتی ہیں۔ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی شعبے کا مجموعی یا اجتماعی Impactکیا ہے؟ سوسائٹی کو بنانے، سنوارنے میں اُس کی آؤٹ پٹ کیا ہے؟

جب ہمارا مطلوب معیار یہ ہے کہ ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو سوسائٹی کے لیے مفید یا منفعت بخش ہے‘‘ تو پھر جائزہ بھی اسی بنیاد پر لیا جانا چاہئے کہ آپ کے پرچار یا دلائل سے کس قسم کے لوگ تیار ہو رہے ہیں؟ وہ سوسائٹی کے لیے کس قدر کارآمد ہیں اور کن اوصاف کے حاملین ہیں؟

بہرحال بات شروع ہوئی تھی فلموں اور ڈراموں سے، ہماری سماجی و عائلی زندگی پر اثرات کے حوالے سے ہمارے دائیں بائیں ایسے خواتین و حضرات کی کمی نہیں جو اپنے اردگرد کی تمام کثافتوں یا خرابیوں کی اصلیت جانے بغیر اس کی ذمہ داری فلموں پر عائد کر دیتے ہیں۔

کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ شادی جیسے خوبصورت بندھن کو کون کون سے سماجی، معاشی اور خاندانی عوامل ناچاقی میں تبدیل کرتے ہوئے برباد کر دیتے ہیں؟۔ کیا ہماری اجتماعی دانش نے کبھی جائزہ لیا کہ ہمارے روایتی سماج میں عورت کی کمتری اور مرد کی برتری کا نظریہ یا رویہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ کیوں حاوی ہے؟

اس کی پشت پر کون کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ بحیثیت چیئرمین ثالثی و مصالحتی کونسل درویش کی عملی زندگی کا بڑا حصہ عائلی و خانگی جھگڑوں کو سنتے اور سلجھاتے گزرا ہے۔ برسوں کے تجربے نے یہ تلخ حقیقت ذہن نشین کروا دی ہے کہ ہمارے روایتی سماج میں عورت کی حیثیت صدیوں سے کمتر تھی، کمتر ہے اور کمتر ہی رہے گی تاوقتیکہ کوئی انقلابی شعوری، تبدیلی ایسے لوگوں کی ذہنی کایا پلٹ نہ کر دے جس کا سفر نسلوں تک محیط ہو گا۔

ہماری سوسائٹی میں بظاہر خواتین کا بےحد احترام ہے مگر لفاظی کی حد تک جہاں معاملہ حقوق کا آجائے تو پھر اس بدنصیب کی حیثیت ادھوری یا آدھی ہو جائے گی۔ مثال کے طور پر نکاح ہی کو لے لیں جس کی حیثیت دو عاقل بالغ انسانوں کے درمیان معاہدے کی ہے۔

کیا یہ انصاف ہے کہ طاقتور فریق تو جب چاہے بغیر کوئی جواز بیان کیے تین حروف لکھے اور کمزور فریق کے منہ پر دے مارے جبکہ کمزور فریق یعنی عورت چاہے جتنی بھی مظلوم، بےبس، ستم رسیدہ ہو وہ ذاتی حیثیت میں اس ظلم سے چھٹکارے کی مجاز نہ ہے، وہ عدالتوں میں دھکے کھائے، وکلا کی فیسیں ادا کرے۔

درویش کے ذاتی مشاہدے میں ایسے بہت سے کیسز آئے ہیں، ہمارے جو لوگ شادی کے بعد یورپ، امریکہ یا کینیڈا میں آباد ہو جاتے ہیں بدقسمتی سے ناچاقی کی صورت میں اُنکے درمیان ایک اور بہت بڑا مسئلہ کھڑے ہو جاتا ہے۔ لڑکے کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی طلاق کا فیصلہ بہر صورت وطنِ عزیز پاکستان میں ہو جبکہ لڑکی کی تمنا ہوتی ہے کہ اُس کا فیصلہ اُسی مغربی ملک میں کیا جائے جہاں وہ سیٹل ہو چکے ہیں۔

اس کے لیے فریقین پورا زور لگاتے ہیں، سفارشیں ڈلواتے ہیں، آخر کیوں؟ اس لئے کہ اگر طلاق پاکستان میں ہوئی تو لڑکی فارغ، اُس بدنصیب کے پاس اپنی بقیہ زندگی گزارنے کے لئے کوئی آسرا ہو نہ ہو، ہمارے قانون کو اِس سے کوئی غرض، ہمدردی یا دلچسپی نہیں لیکن یہی سانحہ اگر مغربی ملک میں ہوا ہے تو اُن کے قوانین کی مطابقت میں لڑکے کو اپنی آدھی پراپرٹی لڑکی کو دینا ہوگی۔ اگر تمام تعصبات سے اوپر اٹھ کر جائزہ لیں، فطری انصاف روتے ہوئے تقاضا کرے گا کہ جس معصوم کی جوانی آپ نے رول دی اب اس ادھیڑ عمری میں آپ اسے اُس کے گھر سے نکال باہر کر رہے ہیں تو اس استحصال کی کیا تلافی کر رہے ہیں؟

اس نوع کے کتنے مسائل ہیں جو سوسائٹی کے کمزور طبقات کو درپیش ہیں۔ ہمارے دانشور طبقے کی یہ ذمہ داری ایک چیلنج کی صورت بنتی ہے کہ وہ جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال میں لاتے ہوئے درد مندوں کے لیے مرہم اور دوا کا اہتمام کریں۔

چرچ اور مندر سے بڑھ کر یہ امیدیں فلم، ڈرامہ اور تھیٹر سے باندھی جا سکتی ہیں ہالی وڈ کی طرح کوئی شک نہیں ہے کہ انڈین سینما نے دکھی انسانیت کی سسکتی آوازوں کو زبان دی ہے اور ایسے شاہکار تخلیق کیے ہیں جو جنوبی ایشیا کے باسیوں کی روایتی فکر میں ارتعاش کا باعث بنے ہیں۔

درویش کی تمنا ہے کہ وطنِ عزیز میں بھی تخلیقی اذہان شعور کی روشنی پھیلاتے ہوئے آرٹ کو ترقی دیں۔ عصرِ حاضر کے جدید ذہن کو جتنی سائنسی ترقی درکار ہے اتنی ہی آرٹ اور فنون میں ارتقا کی ضرورت ہے۔