سر رہ گزر

February 09, 2020

کبڈی کبڈی

آج سے کبڈی کا انٹرنیشنل میلہ لاہور میں لگ چکا ہے۔ ایک طرف کرکٹ کرکٹ دوسری جانب کبڈی کبڈی اور تیسری جانب مہنگائی مہنگائی کا ’’گل گھوٹو‘‘ کھیل جاری ہے اور یہ کہاوت اپنا رنگ دکھا رہی ہے کہ ’’ڈِھڈ نہ پئیاں روٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں‘‘ آخر اس مہنگائی کے عفریت پر کھیل کھلواڑ اور میلے ٹھیلے سے کب تک پردہ ڈالا جائے گا، آخری سابق وزیراعظم نواز شریف کی بات سچ ثابت ہو گئی کہ ’’پلے نئیں دھیلہ تے کر دی میلہ میلہ‘‘۔ کبڈی ہمارا قومی ثقافتی قدیمی کھیل ہے اور اس میں یہ کیفیت ہوتی ہے کہ ’’اَساں حریف نوں ڈھانوڑا اے بھاویں سردی بازی لگ جاوے‘‘ اگر حکومت وقت کو حکومت چلانے کا ڈھب آتا تو آج ارضِ پاک کے غریب عوام مہنگائی کی کبڈی میں چاروں شانے چت نہ ہوتے، جو بہترین معاشی ٹیم لائے وہ بھی 17روپے کلو ٹماٹر والی اس نے تو واقعتاً بحکم عوام الناس کی چیخیں نکلوا دیں، کھیل ایک اچھی صحت مندانہ سرگرمی ہے انہیں فروغ دینا چاہئے مگر کھلاڑیوں کو اچھی خوراک بھی ارزاں ملتی رہے تو یہ کبڈی بھی ہم جیت سکتے ہیں، کوئی انکار کر سکتا ہے کہ فکر و دانش سے لے کر کبڈی کبڈی تک ہر چیز کا تعلق پیٹ سے ہے، اور پیٹ بھرنے کے لئے رزق اللہ تعالیٰ دیتا ہے مگر بندے ہی بندوں کی روٹی کھا جاتے ہیں، تقسیم اور مینجمنٹ ہی ناقص ہے کیا، وزیراعظم نے بھی کبڈی کبڈی ہی قوم سے کھیلی جو کہہ دیا تنخواہ میں میرا گزارہ نہیں ہوتا، کیا قومی سطح کی بھوک ننگ کا یہ جواب؟ الامان و الحفیظ، کبڈی کبڈی کے ورلڈ کپ کی میزبانی پاکستان کو ملی ہے جبکہ پہلے یہ بھارت کے پاس تھی، یہ سستا، دلچسپ کھیل ہے، اس پر کوئی ٹکٹ بھی نہیں، اس سے سیاحت کو بھی فروغ ملے گا، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کرکٹ جیسا سفید ہاتھی پالا جا سکتا ہے تو کبڈی جیسا پالتو مفید گھوڑا کیوں نہیں پالا جا سکتا۔

٭٭٭٭

آئی بسنت گردن اڑنت

ہمیں بسنت سے کوئی بیر نہیں، یہ پہلے بھی منائی جاتی تھی، پنجاب میں بسنتی رنگ ’’بسنت بہار‘‘ کے سُر چھیڑ دیتا تھا مگر اب ہم نے اسے دو دھاری تلوار بنا دیا ہے، سارے غلط کام حکومت ہی کے نہیں ہوتے اکثر عوام بھی سیدھے راستے چلتے چلتے ڈٹھے کھوہ کی جانب شوق ذوق سے چل پڑتے ہیں، اگر وہی دیسی سادہ سوتی مانجھا ہوتا رنگ رنگ کی پتنگیں ہوتیں، چھتوں پر پکوان اڑائے جاتے، بو کاٹا کی آوازوں سے فضا گونج اٹھتی، کسی کو خراش تک بھی نہ آتی تو اس جیسا رنگ رنگیلا چھیل چھبیلا کوئی تہوار ہی نہ ہوتا، جب نئی نویلی دلہن کے ہاتھ میں چرخی ہو اور بھولے بھالے دولہا کے ہاتھ ڈور تو مجنوں کی پتنگ عشق کے عرش کو چھو لیتی ہے، اور یہ لمحات یادگار بن جاتے ہیں، مگر دھاتی تار سے پتنگ اڑانے والے تو موت کے سوداگر ہیں، بسنت برپا ہو چکی لاہوریئے پرانی روش پر آ جائیں نہ موت خریدیں، نہ بیچیں، زندگی کو بےضرر بنائیں اپنے لئے دوسروں کے لئے اور اگر اب بھی بسنت، گردن اڑنت رہی پالا اڑنت نہ رہی تو یہ تہوار شاید مٹ جائے اور ہم خوشیوں کا ایک اور موقع کھو دیں، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ پولیس والے سیڑھیاں اٹھائے بھاگے بھاگے پھرتے ہوں اور گرفتاریاں کر رہے ہوں، بسنت ہو بسنتی رنگ ہو، ہاتھ میں پتنگ ہو، کسی کی موت واقع نہ ہو، زندگی کے رنگ جا بجا پھیلے ہوں، تو یہ بسنتی موسم بڑی نعمت ہے، ہمیں ہر چیز کو مذہب سے نہیں نتھی کرنا چاہئے، اگر ہم نیو ایئر نائٹ منانے کو ناجائز نہیں سمجھتے تو بسنت سے بھی کہیں؎

او بسنتی پون پاگل نہ جارے نہ جا روکو کوئی

٭٭٭٭

جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا

قومی اسمبلی نے بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد منظور کر لی جبکہ پیپلز پارٹی اور سرکار کے دو وزرا نے مخالفت کی، آج بھی زینب کا باپ کہتا ہے اگر قاتل کو سرعام پھانسی دی گئی ہوتی تو کسی دوسری ’’زینب‘‘ کے ساتھ ایسا نہ ہوتا جو میری زینب کے ساتھ ہوا، عالمی چارٹرز کو اتنی پروا کہ بیٹیاں جان و عزت سمیت صفحۂ زندگی سے مٹا دو، حیرانی ہے کہ وزیراعظم سرعام پھانسی کو جائز قرار دے چکے ہیں اور ان کی خواہش بھی جیسا کہ علی محمد خان نے فرمایا ہے لیکن یہ فواد صاحب اور شیریں مزاری صاحبہ کو انسانی حقوق کا بہت درد ہے، سرعام جو عزتیں اور جانیں نیلام ہو رہی ہیں ان کا کوئی خیال نہیں، یو این چارٹر میں تو کشمیریوں کی قراردادیں بھی درج ہیں ان کے بارے میں دونوں وزرائےکرام انسانیت کا واسطہ کیوں نہیں دیتے۔ اسلام کے چارٹر میں سرعام سزا دینے کا حکم ہے۔ سعودی عرب میں آج بھی سرعام سزا دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں کوئی زینب جیسے انجام سے دوچار نہیں ہوتا، یہ جو سہ پردوں میں نہاں سزا دی جاتی ہے، یہ تو جنگل میں مور ناچنے کے مترادف ہے، ہم کسی کے غلام نہیں نہ ہی استعماری قوتوں کے پابند احکام ہم اپنی معاشرتی زندگی کے لئے جو مفید اور موثر ہوگا کریں گے، یہ حکومتی عذر اپنی جدت پسندی کو طاق پر رکھیں، جب پارلیمان نے قرارداد منظور کر دی تو قانون سازی میں دیر، اندھیر ہوگا، رجم کرنے کی آیت کو کیا قرآن سے مٹانے کی کوئی جرأت کر سکتا ہے۔

٭٭٭٭

تجاوز

....Oبچوں سے جنسی تشدد پر سرعام پھانسی، ایمنسٹی انٹرنیشنل کا اظہارِ تشویش۔

عراق، افغانستان، فلسطین، کشمیر، روہنگیا کے لاکھوں مسلمانوں کے قتلِ عام پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کتنا اظہارِ تشویش کیا، آج 80لاکھ کشمیری محصور ہیں، ایمنسٹی والے اندر جا کر دیکھیں پھر تشویش ظاہر کریں تو مان لیں۔

....Oحکومت، عوام کے روز مرہ کے مسائل پر سر رکھ کر ایسی ابدی نیند سو رہے ہیں کہ پاکستان کے ہمدرد کہہ رہے ہیں؎

سرہانے پی ٹی آئی کے آہستہ بولو

ابھی ٹُک روتے روتے سو گئی ہے

....O کرونا وائرس: ہمارا ناقص خیال ہے، کہ حرام حلال جانوروں کی تمیز کئے بغیر ہر جاندار کی ڈش تیار کرنے سے آسمانی عذاب حرکت میں آ جاتا ہے، انسانیت اس دنیا کے مالک کی مقررہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔

٭٭٭٭