مذاکراتی ٹیم سے مقابلہ: ق لیگ جیت گئی

February 13, 2020

پاکستان تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم نے حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے کامیاب مذاکرات کرکے انہیں رام کر لیا ہے۔ ایک ہی کشتی میںسوار دونوں اتحادی جماعتوں نے آئندہ الیکشن تک ایک ساتھ چلنے کا عہد کرکے دونوں جماعتوں کے درمیان معمولی سیاسی اختلافات کو ہوا دے کر پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کے خواب دیکھنے والوں کے خوابوں کوچکنا چور کر دیا ہے۔ وزیراعظم کی روٹھے اتحادی منائو مشن پر قائم کردہ پی ٹی آئی کی وفاقی وزراء پرویز خٹک، اسد عمر، شفقت محمود، گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار پر مشتمل مذاکرتی ٹیم نے چودھری برادران کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ (ق) کی اعلیٰ قیادت سے مذاکرات کئے ۔

چودھری برادران کے حکومتی معاملات اور پاور شیئرینگ کے طے شدہ معاہدے پر عملدرآمد کی یقینی دہانی کرا کر دونوں جماعتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوںکو سمیٹ کر اپوزیشن جماعتوں کوخاموش کرادیا جنہوں نے دو ہفتوں سے اتحادی جماعتوں کے معمولی اختلافات کو جواز بناکر سیاسی ماحول میں چائے کی پیالی میں طوفان برپا کر رکھا تھا۔ مسلم لیگ (ق) کے چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی بڑے زیرک اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ انہیں حکومتی، سیاسی اور انتظامی معاملات چلانے کا وسیع تجربہ ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ چودھری برادران کے تجربے، سیاسی تعلقات، ان کی سیاسی راوداری سے فائدہ اٹھاتے اور حکومتی اور انتظامی امور میں ان کی سفارشارت اور تجاویز کو اہمیت دیتے لیکن ڈیڑھ سال کے دور اقتدار میں وزیراعظم عمران کے غیر سیاسی اور غیر سنجیدہ بعض رفقاء کار نے چودھریوں کے خلاف ان کے کان بھرے اور نجی محفلوں میں وزیراعظم کی گفتگو کے حوالے دے کر چودھری خاندان کو بلیک میلر قرار دے کر ان کو شریک اقتدار بننے سےدور رکھا اور طے شدہ معاہدے کی پاسداری سے گریز کرتے ہوئے ان کے انتخابی حلقوں کے ترقیاتی فندز روک دیئے گئے اور مسلم لیگ (ق) کے وزراء کے محکموں میں بے جا مداخلت کرکے ان کو ڈیلور کرنے سے روک دیا گیا وفاق میں مسلم لیگ (ق) کے ایم این اے چودھری مونسی الٰہی کو وزارت دینے سے بھی خاموشی اختیار کر لی۔ مسلم لیگ (ق) کی اعلیٰ قیادت نے متعدد بار صورتحال سے اتحادی جماعت کی قیادت کو باور کرایا مگر معاملات کو سلجھانے کی بجائے حکومتی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دے کر حالات کو بگاڑا گیا۔

چودھری براداران نے معاملات کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر وفاقی وزیر چودھری طارق بشیر چیمہ، کامل علی خاں اورچودھری مونسی الٰہی کو فرنٹ فٹ آ کر سیاسی کھیل کھیلنے کی اجازت دی ان کے جارحانہ موقف اختیارکرنے پر پی ٹی آئی کے حلقوں میں کھلبلی مچ گئی اور ہر طرف سے پنجاب میں تبدیلی کی باز گشت سنائی دینے لگی۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اپنی اتحادی جماعت (ق) لیگ کا دبائو برداشت نہ کر سکی۔ انہیں جلد احساس ہو گیا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کےاقتدار کی کرسی (ق) لیگ کی بیساکھیوں پر قائم ہے اگر یہ بیساکھی کمزور ہو گئی تو پنجاب میں سیاسی تبدیلی کو روکنا پی ٹی آئی کے لئےحکومت نہ صرف مشکل ہو گی بلکہ ناممکن بھی۔

پنجاب میں وزیراعظم کے وسیم اکرم پلس کی حکومت گرنے کا مطلب مرکز میں پی ٹی آئی کے اقتدار کا خاتمہ تھا اسی دبائو میں آ کر پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم نے (ق) لیگ کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی، ق لیگ کے وزراء کو ان کے محکموں میں بااختیار بنانے اور افسران کے تبادلوں اور اہم قومی اور صوبائی معاملات پر اتحادی جماعت سےمشاورت کے معاہدے پر عملدرآمد کے سارے وعدے پورے کرنے کی یقین دہانی کرا کر پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ق) کے معاملات پوائنٹ آف نوٹرن تک پہنچنے سے پہلے صورت حال پر قابو پا لیا ہے۔

جبکہ دوسری جانب پنجاب میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) نے بھی پی ٹی آئی کی حکومت گرانے میں سنجیدگی نہیں دکھائی اور مسلم لیگ (ق) کی اعلیٰ قیادت سے مستحکم رابطہ نہ کیا یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ (ق) کے لئے پی ٹی آئی چھوڑ کر کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا اور چودھری برادران نے پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کی یقین دہانی کو عافیت جان کر اسی تنخواہ پر کام کرنے کو عافیت سمجھ کر قبول کر لیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا اپنی جگہ بجا ہے کہ ہماری پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی 15ماہ ماضی کی حکومت کے 5برس سے بہتر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی، بے روزگاری، قرضوں میں بہت اضافہ ہوا۔ ڈکیتیوں اور سنگین جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور پولیس سنگین جرائم کی ایف آئی آر درج نہیں کرتی! ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اگر مزید 15ماہ میں حکومت نے کوئی ٹھوس قدم نہ اُٹھایا پھر تو پنجاب کے عوام کا اللہ ہی حافظ ہو گا۔

جمعیت العلماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اکتوبر میں اسلام آباد میں دھرنے کے بعد ایک بار پھر اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ہم خیال چھوٹی دینی و سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کی صف بندی شروع کر دی ہے۔ اس کے پہلے مرحلے میں مولانا فضل الرحمان نئے دینی جماعتوں کے الائنس کے ساتھ کراچی اسلام آباد پشاور اور لاہور میں بڑے اجتماعات کے لئے رابطہ مہم پر ہیں۔

گزشتہ دنوں انہوں نے لاہور میں قیام کے دوران 19مارچ کو اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا۔ مولانا فضل الرحمان نے اکتوبر میں کراچی سے اسلام آباد تک لاکھوں لوگوں کو لے جا کر دھرنا میں سیاسی حلقوں پر اپنی دھاک بٹھا دی تھی لیکن دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے حکومت پر دبائو ڈال کر اپنے معاملات طے کر لیے اور مولانا اور ان کے ساتھیوں کو اکیلا چھوڑ دیا جس کا مولانا فضل الرحمان اب کھلے عام دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کا گلہ کر رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کس کے بل بوتے پر دوبارہ احتجاجی مرحلے کا آغاز کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان بڑے زیرک سیاستدان ہیں، وہ سیاست کے رموز سے اچھی طرح واقف ہیں وہ کسی مقصد کے بغیر اتنا بڑا قدم نہیں اٹھائیں گے، ان کے احتجاجی پروگرام کے پیچھے ضرور کوئی مقصد ہے۔بتایا گیا ہے مولانا فضل الرحمان کا مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور دیگر رہنمائوں سے رابطہ ہے اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی مولانا فضل الرحمان کی پشت پر ہیں۔ اب وہ ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان کے ذریعے حکومت پر وار کرنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے لاہور میں 19مارچ کے جے یو آئی کے جلسہ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے کارکن شریک ہوں گے۔

دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا مقصدان حالات میں اقتدار حاصل کرنا نہیں صرف عمران خاں کی حکومت کو کمزور کرنا ہے تاکہ وہ کوئی ڈیلیور نہ کر سکے لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے احتجاج کے پیچھے دینی مدرسوں کو ملنے والی غیر ملکی امداد کا حساب اور مانیٹرنگ کا معاملہ ہے اور وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جگہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے لئے اپنی کشتیاں جلا کر میدان سیاست میں نکلے ہیں۔ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ اگلے چند ماہ میں واضح ہو جائے گا۔

اگر شریف خاندان نے وطن واپس آ کر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نہ کی اور آصف علی زرداری نے اسی طرح خاموشی اختیار کئے رکھی اور بلاول بھٹو کو فری ہینڈ نہ دیا تو مولانا فضل الرحمان اور ان کی ہم خیال دینی جماعتوں کے لئے کھلے میدان میں کھیلنا بڑا آسان ہو گا جو موجودہ حکومت کے لئے لائف لائن ثابت ہو گا اور وہ آسانی سے اپنی 5سالہ آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔