سرکاری فنڈز: کمی کی شکایت، استعمال میں تساہل!

February 21, 2020

بدھ کے روز پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ناقص منصوبہ بندی کے باعث 411ارب روپے کے سرکاری فنڈز استعمال نہیں کیے جا سکے۔ اس بیان کو ان بہت سے انکشافات کے سلسلے کی ایک کڑی کہا جا سکتا ہے جو برسوں بلکہ عشروں سے سامنے تو آتے رہے ہیں مگر ان کے ازالے کے ضمن میں کیا کچھ ہوا، اس بارے میں پاکستانی عوام بالکل لاعلم ہیں۔ یہ بات بڑی حد تک معمول کا حصہ ہے کہ وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں ہی نہیں، مختلف محکموں اور اداروں کی طرف سے سرکاری فنڈز میں کمی کی شکایت سامنے آتی رہتی ہیں جبکہ اختتام سال پر انہی حلقوں کے لیے مختص فنڈز بروئے کار نہ لائے جانے کی کہانیاں بھی سننے میں آتی ہیں۔ وطنِ عزیز کی آبادی کا وہ ایک فیصد حصہ جو ٹیکس ادا کرتا ہے اور جس میں غالب تعداد ملازمت پیشہ افراد پر مشتمل ہے، یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ محاصل جمع کرنے والے اداروں کی کاوشیں، دعوئوں اور اعلانات تک کیوں محدود ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے بااثر افراد سمیت 99فیصد آبادی کو براہِ راست ٹیکس نیٹ میں لانے کی صورت میں کیوں نظر نہیں آتیں۔ اقتصادی حکمت کاری کی کتابوں میں پیٹرول، گیس، بجلی اور پانی کے محصولات بڑھانے سے آگے کے بھی کچھ اسباق ضرور ہوں گے۔ ان اسباق کا مطالعہ کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے پیش کیے گئے غیراستعمال شدہ اخراجات جن مدوں سے متعلق ہیں ان میں 266.3ارب ترقیاتی کاموں، 12.5ارب پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی مدمیں بھی ہیں۔ ترقیاتی کاموں سے معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی جو سہولتیں ملنی چاہئیں وہ اگر مل نہیں پا رہیں تو یہ غور کیا جانا چاہئے کہ ان منصوبوں میں کیا خامیاں تھیں۔ عوام کو صاف پانی فراہم کرنے کی اسکیمیں اگر عشروں سے کامیاب نہیں ہو رہی ہیں تو دیکھنا چاہئے کہ ان کی پشت پر کن طبقوں کے مفادات کارفرما ہیں۔ صفائی کی ابتر صورتحال، کراچی جیسے شہر کی سڑکوں کی خستہ حالی، گلیوں اور سڑکوں پر بہنے والے گٹر کے پانی اور سب سے بڑھ کر کاروبار کی مندی کے باعث فاقہ کشی کو پہنچی صورتحال سب دیکھ رہے ہیں۔ سفارش اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر کی گئی تقرریوں نے ہمارے سرکاری ڈھانچے کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں محدود مالیاتی وسائل اور گنے چنے ماہرین کی موجودگی کے باوجود کراچی شپ یارڈ، پی آئی ڈی سی، نیشنل بینک اور ادارہ ترقیات دیہی جیسے اداروں کے قیام نے صنعتی و زرعی ترقی کی بنیاد ڈالی، پٹ سن کی تباہ کاری کی بھارتی سازش کو ناکام بنایا، کئی نئی زرعی اقسام دریافت کیں، شوگر ملز، ریفائنریز، بحری جہازوں، ریلوے انجنوں اور ڈبوں کی صنعت اور پھر ڈیموں کی تعمیر کے کام ہوئے۔ بعد ازاں بھی ترقی تو ہوئی مگر کمیشن، کک بیکس اور دیگر معاملات نے ترجیحات بدل دیں۔ موٹر وے، اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبےدل کش ہیں مگر ان سے پہلے زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے، ایگرو بیسڈ صنعتوں کو ترقی دینے، گھریلو، چھوٹی اور بڑی صنعتوں کے ذریعے لوگوں کو روزگار فراہم کرکے بچوں کو تعلیم دلانے اور پُرتعیش بسوں کے سفری اخراجات برداشت کرنے کے قابل بنانے کے مراحل طے کرنا ضروری تھا۔ تعلیمی بجٹ کو انتہائی پسماندہ کہلانے والے ملکوں سے کمتر سطح پر لا کر بطور پالیسی حاکم و محکوم کی تفریق کا پیدا کیا جانا قائداعظم، قائدِ ملت اور دیگر بانیان پاکستان کے تصور ریاست کے منافی ہے۔ لوگ یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ انہیں فوڈ باکس سمیت بنیادی سہولتیں بھی مہیا کی جائیں اور وطنِ عزیز کے قدرتی حسن اور ثقافتی آثار کی حفاظت کا اہتمام کرتے ہوئے عام آدمی کا قائداعظم کے حقیقی پاکستان میں رہنے بسنے کا حق بھی تسلیم کیا جائے۔