جیو پر شادی کی خبر نے پاکستان نژاد بوبو کوشہرت کی بلندی تک پہنچادیا

February 24, 2020

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) جیو نیوز پر شادی کی خبر پر پاک پتن سے تعلق رکھنے والے ناروے کے ایک میٹر قد کے باشندے برہان چشتی عرف بوبو کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا، جیو کے فیس بک اوریوٹیوب چینلز پر اس کی شادی کی تقریب کی خبر کو کم وبیش 25 ملین افراد نے دیکھا۔ گزشتہ روز ایک کنسرٹ میں شرکت اور اپنی 37 ویں سالگرہ منانے لندن آیا، اس کی ہمشیرہ ڈاکٹر سروش چشتی اور ٹیم کے ارکان بھی اس کے ہمراہ تھے، جہاں اس نے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ستمبر 2019 میں اوسلو میں اس کی شادی کی تقریب کے بعد سے اس کی زندگی تبدیل ہوگئی ہے۔ بوبو پیدائشی طورپر ریڑھ کی ہڈی کے ایک مرض میں مبتلا تھا اور وہیل چیئر ہی اس کا مقدر تھی لیکن اس نے اپنی روزمرہ زندگی اپنے طورپر گزاری، اس نے ازراہ مذاق بتایا کہ شادی کے بعد سے اس کی زندگی کے معمول تبدیل ہوگئے ہیں اور اب وہ رات گئے تک گھر سے باہر نہیں رہتا۔ اس نے بتایا کہ اب میں بہت زیادہ ذمہ دار ہوگیا ہوں جبکہ شادی سے قبل میں اپنے دوستوں کے ساتھ کچھ بھی کرتا رہتا تھا، اب بھی میں یہ سب کچھ کرسکتا ہوں لیکن اب میری ایک بیوی بھی ہے، جو میرا خیال رکھتی ہے اور میں نظم و ضبط میں رہنے کی کوشش کرتا ہوں، بوبو کا جو بہت سے آرٹسٹوں کے ساتھ میل ملاپ کے حوالے سے جانا جاتا تھا، کہنا تھا کہ آپ کو اپنی عادتیں خواہ وہ کتنی ہی پختہ ہوں، تبدیل کرنا پڑتی ہیں، تبدیلی سب کیلئے ہی ہوتی ہے اور یہ تبدیلی اچھی ہوتی ہے۔ اگرچہ بوبو پیدائشی معذور تھا لیکن اس کے والدین نے اسے کبھی معذور تصور نہیں کیا۔ انھوں نے اس کا پوری طرح خیال رکھا اور ایک مقامی یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں اس کا گریجویشن مکمل کرایا، اس کے 4 بہن بھائیوں میں 2 ڈاکٹر اور 2 ٹیچر ہیں۔ بوبو نے بتایا کہ اس کے والدین اس کو کبھی کلاس یا ہوم ورک سے بھاگنے نہیں دیتے تھے۔ یہاں تک کہ بیماری میں بھی مجھے چھوٹ نہیں دی جاتی تھی۔ ہسپتال میں بھی مجھے ہوم ورک کرنا یاد ہے۔ بوبو فی الوقت اوسلو میں اولوبا نامی ایک کمپنی ایڈوائزر کی حیثیت سے ملازم ہے، یہ کمپنی معذوروں کیلئے کام کرتی ہے اور انھیں معمول کی زندگی گزارنے کیلئے مدد فراہم کرتی ہے۔ وہ بوبو اسٹائل کے نام سے اپنا برانڈ بھی چلاتا ہے، جس میں مینجمنٹ، ایونٹس، سوٹس اور چیریٹی کے شعبے ہیں، جہاں مردوں کیلئے اس کے ڈیزائن کردہ سوٹس دستیاب ہوتے ہیں، وہ مختلف این جی اوز کیلئے فنڈ جمع کرنے میں بھی مصروف رہتا ہے۔ وہ ناروے میں اپنے ایک عزیز دوست کے ساتھ ایک این جی او بھی چلاتا ہے، معذوری کبھی بھی بوبو کی زندگی کے معمولات میں آڑے نہیں آئی۔ بوبو نے نیوز اور جیو کوبتایا کہ میں اللہ کا شکر گزار ہوں، جس نے مجھے دوسروں سے بہت زیادہ دیا ہے، میں شکوہ کرنے کا قائل نہیں ہوں، میں ایک ٹوٹے ہوئے ہاتھ کے ساتھ تین سال تک کام کرتا رہا لیکن کبھی شکوہ نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں ہر ایک کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے، ان مسائل کی نوعیت علیحدہ ہے، میں خوش قسمت ہوں کہ ایک فلاحی ریاست میں رہتا ہوں، میری دیکھ بھال کی جاتی ہے اور معاشرے نے مجھے کبھی دھتکارا نہیں، میری خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی معذور عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ بوبو کی چھوٹی بہن ڈاکٹر سروش نے کہا کہ اللہ نے میرے بھائی کو بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم میں بہت سی عادتیں مشترک ہیں۔