خواتین کو بااختیار بنانے کی کوشش

February 26, 2020

خرم ضیاء خان

کچھ عرصہ قبل احساس پروگرام کے تحت لنگر شروع کیا گیا ،جس پر لوگوں کی بڑی تعداد نے تنقید کرنا شروع کردی۔ لنگر پروگرام پر تنقید کرنے والے افراد اس بات سے شاید بے خبر ہیں کہ غربت کے خاتمے کے لیے احساس ایک کثیر الجہتی پروگرام ہے۔ یہ 115 پالیسیوں اور پروگرامز پر مشتمل ہے جنہیں اگلے مرحلے میں توسیع دیے جانے کا امکان ہے۔

احساس پروگرام کو اپنے شعبے کی ماہر ڈاکٹر ثانیہ نشتر چلا رہی ہیں ۔ اس سے قبل وہ عملی طور پر تخفیفِ غربت کے منصوبےپر کام کرچکی ہیں۔ اپنی مہارت کے پیش نظر وہ اس کام کےلیے بہت موزوں شخصیت ہیں۔لہٰذا اُمید ہے کہ معاشرے میں پھیلی عام غلط فہمیوں کے برعکس مستقبل قریب میں ان کی اور ان کے ساتھ منسلک افراد و اداروں کی کوشش سے یہ پروگرام غربت کے خاتمے کی کوششوں میں نمایاں قدم ثابت ہوگا۔

پاکستان میں بہت سے لوگ لنگر کی مخالفت کررہے ہیں۔ ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ حکومت یا بعض فلاحی اداروں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ وہ لوگوں کو کسی محنت کے بغیر کھانا فراہم کر رہے ہیں ۔ اس دلیل کی تفصیلات میں جائے بغیر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ احساس پروگرام کے تحت تخفیفِ غربت کے قومی منصوبے کے ذریعے انتہائی غربت کے شکار افراد کے لیے پائے دار انداز سے روزگار کے مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔ نیشنل پاورٹی گریجویشن اقدام (این پی جی آئی) میں اثاثہ جات کی فراہمی، بلاسود قرضے، اثاثوں کے مناسب استعمال کے لیے ووکیشنل اور اسکل ٹریننگ کی فراہمی کا اہم کردار ہے۔ این پی جی آئی کے تحت بلاسود قرضوں کی فراہمی پاکستان پاورٹی ایلی ویشن فنڈ کی 24 شراکتی تنظیموں کی جانب سے ملک بھر کے 100 اضلاع میں جاری ہے۔ اس اقدام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ 50 فیصد قرضے خواتین کو فراہم کیے جارہے ہیں۔ احساس پروگرام کو چار ستونوں پر کھڑا کیا گیا ہے اور این پی جی آئی اس کے چوتھے ستون کا حصہ ہے، جس کا روزگار اور آمدن سے تعلق ہے۔

اس اقدام کے تحت ملک کے 100 اضلاع میں ایک ہزار سے زاید قرضہ فراہمی کے مراکز سے ہر ماہ 80 ہزار بلاسود قرضےفراہم کیے جائیں گے۔ ابتدائی چار ماہ میں اس اقدام کے ذریعے 3 لاکھ 35 ہزار 251 افراد میں گیارہ ارب سے زاید رقم تقسیم کی جاچکی ہے ۔ اب تک بیش تر قرضے اشیاء یا اجناس کی تجارت کے لیے فراہم کیے گئے ،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیہی آبادی اس اقدام میں زیادہ دل چسپی لے رہی ہے۔ توقع ہے کہ اس پروگرام کے تحت اگلے چار سالوں میں 20 لاکھ سے زاید افراد مستفید ہوں گے۔

ماضی میں فنڈزکی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے اس طرح کے اقدامات سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ تاہم اس بار حکومت نے اس اقدام کے لیے اپنے وسائل کے ساتھ انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچر ڈیولپمنٹ (آئی ایف اے ڈی) اور ایشین ڈیولپمنٹ جیسے بین الاقوامی ڈونرز کے ذریعے پہلے سے ہی 42.65 ارب روپے کا انتظام کرلیا ہے۔

ملکی معیشت میں قرضہ لینے والے افراد کو کارآمد بنانے کے ساتھ 60 لاکھ خواتین کے سیونگ اکاؤنٹس بھی کھولے جائیں گے جونقد کی صورت میں وظیفہ وصول کررہی ہیں۔ انہیں کفالت پروگرام کے تحت موبائل فونز بھی فراہم کیے جائیںگے۔ مناسب مالیاتی تربیت کی فراہمی سے انہیں وسائل کے بہتر استعمال کے قابل بنایا جائے گا، چاہے یہ بلاسود قرضے ہوں یا اثاثہ جات ہوں۔

اس پروگرام میں خواتین پر توجہ دینے کی حکمت عملی قابل ذکر ہے۔ مختلف تحقیق سےیہ بات سامنے آئی ہے کہ جب خواتین کا اخراجات پرکنٹرول ہوتاہے تو اس بات کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ آمدن کا بڑا حصہ بچوں پر خرچ کیا جائے گا۔ چھوٹے قرضوں کی فراہمی کے طریقہ کار کے موجد بنگلا دیش کے نوبل انعام یافتہ محمد یونس کے سامنے یہ بات آئی کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں نہ صرف زیادہ فعال انداز سے قرضوں کی ادائیگی کرتی ہیں بلکہ مردوں کے مقابلے میں جب ان کا پیسوں پر کنٹرول ہوتا ہے تو ان کی جانب سے آمدن کے زیادہ بہتر استعمال کا امکان ہوتا ہے ۔ فلپائن میں ایک تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ جب خواتین کا سیونگ اکاؤنٹس پر کنٹرول ہوتا ہے تووہ گھریلو استعمال کی پائے دار مصنوعات، جیسے واشنگ مشین یا کچن سے متعلق سامان خریدنےپر رقم صرف کرتی ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد گھر میں کسی معاوضے کے بغیر کام کرتی ہے ۔ انہیں اپنا مقدر اپنے ہاتھ سے بنانے کا موقع فراہم کرنے سے پورا معاشرہ مستفید ہوگا۔

احساس پروگرام کو پاکستان میں اب تک سراہا نہیں گیا تاہم عالمی سطح پر اس پروگرام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے شریک چیئرمین اور مائیکروسافٹ کے چیئرمین بل گیٹس اس پروگرام کی تیاری پروزیر اعظم پاکستان اور ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو سراہتے ہیں اور انہوں نے اس پروگرام کے لیے 200 ملین ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔کچھ عرصہ قبل ایشیائی ترقیاتی بینک نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (جو اب احساس پروگرام کا حصہ ہے) کو اضافی وسائل کی فراہمی کے لیے حکومت کے ساتھ 200 ملین ڈالرکے قرضے کے معاہدے پر دست خط کیے ہیں ۔

غربت کا خاتمہ ایک مشکل کام ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی سے تخفیفِ غربت کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ کافی خطرناک بھی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان باقاعدگی سے تخفیفِ غربت سے متعلق چین کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ اگر ہم چین کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ چین کے پاس آبادی کنٹرول کرنے کی حکمت عملی بھی ہے اور وہ اس پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ ہم نے پاکستان میں آبادی کو کنٹرول کرنےکےبڑے شان دار منصوبے بنائے، لیکن ان پر عمل درآمد میں ناکامی ملک کےلیےبھاری قیمت ثابت ہورہی ہے۔احساس پروگرام کو کام یاب بنانے کےلیے حکومت کو چھوٹے گھرانوں کےلیے خصوصی مراعات شامل کرنی چاہییں۔

کاغذات میں احساس پروگرام ایک بہترین اقدام ہے، لیکن اس پر مناسب انداز سے عمل درآمد کے لیے بہت زیادہ محنت اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہم وطنوں کے لیے حکومت بھرپور انداز سے اس پروگرام پر عمل درآمد کرے گی۔تاہم اسے حکم راں اشرافیہ کے اثر سے پاک رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے لوگوں سے رابطےکرنے چاہییں اور انہیں بہتر اندازسے رہنمائی فراہم کی جانی چاہیے۔