ترقیاتی کام کرپشن کی نذر

March 01, 2020

ٹنڈو الہ یار ضلع میں ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے، حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے ترقیاتی فنڈز میں بڑے پیمانے پر خورد برد کی گئی ہے جس کی وجہ سے متعدد منصوبے تعطل کا شکار ہیں۔ 2008.09سے لے کر اب تک سابقہ ناظمین کے دور میںشروع کئے جانے والے اہم پروجیکٹس12سال گزرنے کے باوجود مکمل نہ ہو سکے اورتباہ ہوگئے۔ اربوں روپے مالیت کے منصوبوں میں کروڑوں روپےکی کرپشن کی گئی ۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق ضلع میں ہونے والےمختلف پروجیکٹس میں سےہر منصوبے میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں من پسند ٹھیکیدراوں کو اہم منصوبوں کے ٹھیکے دیئے گئے جو اب تک مکمل نہ ہو سکے۔

اس کے خلاف سماجی تنظیموں نے اعلیٰ حکام کو متعدد بار شکایتیں کیں جس پرایکشن لیتے ہوئے نیب اور اینٹی کرپشن کی ٹیموں نے چھاپے مارے۔ حیرت انگیز طور پر وہ بھی رسمی کارروائی ثابت ہوئے اور کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی جب کہ کسی میگا پروجیکٹ کی انکوائری بھیمکمل نہیں ہوئی۔رپشن کی نذر ہونے والے اہم ترقیاتی منصوبوں میں محترمہ شہید بے نظیر بھٹو اسپتال ،بلاول پبلک اسکول،مسن ڈگری کالج ،ضلع سیکرٹریٹ کمپلیکس ،ڈیول کیریج روڈ ،ودیگر پروجیکٹ شاملہیں۔

2004میں ٹنڈوالہ یار کو ضلع کا درجہ دیا گیا جس کے بعد 2005میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے اور ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی ضلع ٹنڈوالہ یار کی پہلی ناظمہبنیں۔ انہوں نے نصرپور روڈ پر قائم نئی تعمیر شدہ مونوٹیکنکل کالج میں غیر قانونی طورپر ضلع کونسل آفس،ڈپٹی کمشنر آفس ،ایس ایس پی آفس سمیت دیگر دفاتر قائم کئے اور کالج کو شروع ہونے سے قبل ہی دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا جس کا مقدمہ آج تک چل رہا ہے۔دوسری جانب ڈاکٹرضلعی ناظمہ راحیلہ گل مگسی نے اپنے بھائی سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر عرفان گل مگسی کے ساتھ مل کر 2006اور 2007میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے دور میں سندھ حکومت سے ضلع ٹنڈوالہ یار کے لئے اربوں روپے کی لاگت سے میگا پروجیکٹ شروع کئے جن میں کلچرل اینڈ اسپورٹس کمپلیکس،ضلع سیکرٹریٹ ،پولیس لائن،ڈسٹرکٹ ٹریژری آفس،اینٹی کرپشن آفس،تین سو بستروں پر مشتمل شہید بے نظیر بھٹو اسپتال ،جی او آر کالونی ،ججز کالونی ودیگر کالونیاں و دفاتر شامل تھے۔2008کےعام انتخابات سے قبل مذکورہ پروجیکٹ پر تیزی سے کام جاری تھا اور 30فیصد کام مکمل ہوگیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کی نئی حکومت بننےکے بعدنہ صرف بلدیاتی نظام کا خاتمہ ہوگیا بلکہ تمام میگا پروجیکٹسکی مد میں فنڈز مختص نہ ہونے کے باعث ترقیاتی کام بند ہو گیا ۔12سال گزرنے کے بعد بھی تمام ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں، جس میں شہید بے نظیر بھٹو اسپتال جیسا اہم منصوبہ بھی شامل ہے۔

باوثوق ذرائع کے مطابق ضلع ٹنڈوالہ یار میں آنے والے مختلف ڈپٹی کمشنر ز نےپروجیکٹس کی تکمیل کے لئے سندھ حکومت کو خطوط ارسال کئےجس کے بعد دو منصوبوں پر کام شروع ہوئے۔ ان کی کوششوں سے ٹریژری آفس اور پولیس لائن فعال ہو گئی ہیں جبکہ اس کے علاوہ تمام منصوبوں پر کام بند پڑے ہیں۔اس سلسلے میں سندھ حکومت اور منتخب نمائندوں کی پرسرارخاموشی شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے ۔ ضلعی انتظامیہ نے بھی تھک ہار کر خاموشی اختیار کرلی ہے ۔کھلی کچہریوں کے انعقاد کے موقع پر سماجی رہنماؤں اور سول سوسائٹیز کی جانب سے وزیر اعلی سندھ سے شکایت کی گئی جس کے جواب میں انہوں نے تمام منصوبوں پر کام مکمل کروانے کی یقین دہانی کروائی ، لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا ۔ٹنڈوالہ یارضلع کے میگا پروجیکٹس میں سے ایک انتہائی اہم منصوبہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اسپتال کی تکمیل ہے جو تین سو بستروں پر مشتمل ہے۔ اس کیعمارت بھی مکمل حالت میں ہے، اس کے لیے نیا فرنیچر اور طبی آلات بھی منگوائے گئے بھی منگوایا لیا گیا پر نا اہلی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے آج تک اس اسپتال کی ایسنی منظور نہیں ہو سکیجب کہ اسپتال کے ساتھ تعمیر ہونے والی ڈاکٹر کالونی،پیرا میڈیکل اسٹاف کالونی اسپتال کا ّغاز ہونے سے قبل ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہیں۔ اس میں بنایا گیا پارک جنگل میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے ڈی ایچ او سول اسپتال ڈاکٹر لچھمن داس سے نے رابطہ کرنے پرنمائندہ جنگ کو بتایا کہ میری پوسٹنگ حال ہی میں ہوئی ہے ۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد جب میں نے اسپتال کا ریکارڈ چیک کیا تو اس کے مطابق اسپتال کی بلڈنگ ہمیں ہینڈ اوور کردی گئی ہے، لیکن اس کی ایسنی منظور نہیں ہو رہی ہے۔ میں نے ایسنی کی منظوری کے لئے متعدد خط لکھے ہیں ۔ ہمیں اسپتال کے لئے 700سے زائد افراد کے عملے کی ضرورت ہے جن میں ڈاکٹرز ،سرجن، پیرا میڈیکل اسٹاف ودیگر عملہ شامل ہے۔ اگر ہمیں یہ مل جائے تو ہم اسپتال کو فعال کر سکتے ہیں۔

جنگ کو موصول ہونے والی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ عوام کو سہولتیں فراہم کرنے اور شہر میں ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے کیریا شاخ پر محترمہ شہیدبے نظیربھٹو بس ٹرمینل تعمیر کیا گیا تھا جواپنے آغاز سے قبل ہی مکمل طور پر غیر فعال ہو گیا اور اس کی دیوار بھی گر گئی ہے۔واضح رہے کہ سابق ایڈ منسٹریٹر میونسپل کمیٹی و ضلع کونسل رضا اللہ گھمرو نے 4کروڑ روپے سے زائد لاگت سے شہید محترمہ کے نام سے بس ٹرمینل تعمیر کرنے کی منظوری حاصل کی تھی۔ گزشتہ سال اس پروجیکٹ پر کام شروع ہوا اور بس ٹرمینل کی تعمیر کی گئی لیکن اس کی تعمیر میں ناقص میٹریل کے استعمال کی وجہ سے اس کی دیوارمنہدم ہو گئی جو کئی ماہ گزرجانے کے باوجودبھی دوبارہ تعمیر نہیں کی گئی۔

ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 2016میں سندھ کے چیف سکریٹری صادق میمن کی منظوری سے ضلع میں چھ کروڑ روپے کی لاگت سے ملٹی پرپز اسپورٹس کمپلیکس تعمیرکیا گیا تھا لیکن ضلعی انتظامیہ کی عدم دلچسپی کے باعث اسپورٹس کپلیکس کی عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی، کھڑکی دروازے توڑ دیئے گئے اور قیمتی سامانغائب ہو گیا۔اس کا مقدمہ انتظامیہ کی جانب سے تھانے میں درج کرایا گیا جس کے بعد پولیس نے متعدد افراد کو حراست میں لیا لیکن کوئی نتیجہ نہی نکلا۔ضلع میں بڑھتی ہوئی کرپشن کی وباء ترقیاتی کاموں کی بندش پر صوبائی حکومت اور منتخب نمائندوں کی خاموشی ضلع کے عوام اور سول سوسائٹی کے ذہنوں میں مختلف سوالات جنم دے رہی ہے، کیا حکومت ان کے جواب دینا گوارہ کرے گی............؟