پرانی پٹریوں پر نئی ٹرین نہیں چلتی

March 03, 2020

آپ بتا سکتے ہیں کہ کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کب ہوا تھا۔ اور انجام کب اور کیونکر ہوا تھا۔ یاد نہیں آرہا نا؟ مجھے بھی یاد نہیں کہ شہرِ کراچی میں سرکلر ریلوے نظام کا آغاز کب ہوا تھا اور اختتام کب۔ اس سلسلے میں مَیں نے پانچ سو لوگوں سے روڈ راستوں، بسوں، گاڑیوں، دکانوں، دفتروں میں رجوع کیا۔ کسی کو یاد نہیں آرہا تھا کہ کراچی سرکلر ریل کب چلی تھی اور کب ہمیشہ کیلئے تھم گئی تھی۔ کراچی میں اتنا کچھ تیزی سے ہوتا رہا ہے اور اتنا کچھ تیزی سے بدلتا رہا ہے کہ ماضی بعید تو دور کی بات، لوگوں کو کراچی کی ماضی قریب کی تاریخ بھی یاد نہیں رہتی۔ کراچی میں اب آپ کو ایک ایسا شخص نہیں ملے گا جو آپ کو بتا سکے کہ اس نے کراچی میں ٹرام چلتے ہوئے کب دیکھی تھی۔ یہ یادوں کا فقدان نہیں ہے۔ یہ کراچی سے لوگوں کی عدم دلچسپی ہے۔ ان کیلئے کراچی پناہ گاہ ہے۔ وہ خواندہ ہوں، ناخواندہ ہوں، ہنرمند ہوں یا بےہنر، کراچی میں ان کو روزی روٹی اور روزگار مل جاتا ہے۔ وہ رہتے تو کراچی میں ہیں مگر ان کی جڑیں کہیں اور ہوتی ہیں۔ کراچی آکر وہ لوگ زندگی میں پہلی مرتبہ سمندر دیکھتے ہیں۔ حیران رہ جاتے ہیں۔ ساحل کو تفریح گاہ سمجھ کر روزانہ سمندر کا رخ کرتے ہیں۔ کلفٹن کے قریب کراچی کے ساحلِ سمندر کا شمار دنیا کے غلیظ ساحلوں میں ہوتا ہے۔

سمندر کے ساتھ اور سمندر کے قریب رہنے کے اپنے آداب ہوتے ہیں۔ وہ آداب آپ کو سمندر سکھاتا ہے۔ طبیعتوں میں تبدیلی آجاتی ہے۔ لاشعوری طور پر آپ کے مزاج میں سمندر کی سی کیفیتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بےانتہا وسعت، پُراسرار گہرائی، ٹھہرائو، بےچین کر دینے جیسی خاموشی، کبھی شور، اماوس کی راتوں میں اداسی کی کالی چادر اوڑھ لینا، چودہویں کا چاند دیکھ کر تڑپ اٹھنا ایسی کیفیتیں آپ کو تب ملتی ہیں جب آپ نسل در نسل سمندر کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ ورنہ طبیعتوں سے پتھر پہاڑوں جیسی سختی اور اکھڑ پن آسانی سے نہیں نکلتا۔ ریگستانوں کی وحشت آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ بٹوارے سے پہلے کراچی کی آبادی ان لوگوں پر مشتمل تھی جنہوں نے نسل در نسل اپنی زندگی سمندر کے ساتھ گزار دی تھی۔ ذات پات میں وہ لوگ ہوتے تو پارسی، کرسچن، مسلمان، ہندو، سکھ، یہودی اور بدھ مت کے پیروکار تھے، مگر وہ لوگ پہلے کراچائیٹ Karachaete/ Kararchiteہوتے تھے۔

پاکستان بن جانے کے بعد بھی کراچی میں ایسے کراچائیٹ تھے جو اپنے شہر کو لندن اور بمبے جیسا خوبصورت دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کراچی کو سرکلر ریلوے کا نظام دیا مگر وہ لوگ کراچی میں چلتے ہوئے ٹرام وے سسٹم کو بچا نہ سکے۔ کراچی کو اپنی ایک پہچان سے محروم کر دیا گیا۔ چلتی ہوئی ڈبل ڈیکر بسیں بند کر دی گئیں۔ کسی نے کوئی اعتراض اور احتجاج نہ کیا۔ تب کراچی پورے پاکستان کے لوگوں کیلئے شہرِ روزگار بنتا جا رہا تھا۔ روزی روٹی اور چھوٹے موٹے کاروبار کی غرض سے کراچی آنے والوں کو قطعی پروا نہ تھی کہ ایک عالیشان شہر ان کی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتا جا رہا تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں اور اس قدر تیزی سے لوگوں نے کراچی آنا شروع کر دیا کہ کراچی کا معاشرتی نظام درہم برہم ہوگیا۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد برصغیر کے کسی شہر پر سوائے کراچی کے لوگوں نے اس قدر دھاوا نہیں بولا تھا۔ کسی شہر کی طرف اندرونِ ملک سے اس قدر نقل مکانی نہیں ہوئی تھی جتنی نقل مکانی کراچی کی طرف ہوئی تھی۔ کبھی نہ کم ہونے والا اور کبھی نہ تھمنے والا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ کراچی میں جب لوکل ٹرین یعنی سرکلر ریلوے متعارف کروائی گئی تھی تب کراچی کی آبادی ایک کروڑ سے کم تھی۔ لوکل ٹرین کو پاکستان کی جڑوں میں بیٹھی ہوئی کرپشن چاٹ گئی۔ لوکل ٹرین میں سفر کرنے کیلئے لوگ ٹکٹ خریدنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ سفر کے دوران ٹکٹ چیکر بغیر ٹکٹ کے سفر کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے تھے۔ چلتی ٹرین میں مسافروں اور ٹکٹ چیکروں کے درمیان مک مکا ہو جاتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے خسارے کے روز افزوں بڑھنے والے پہاڑ نے کراچی سرکلر ریلوے کو تہس نہس کر دیا۔

یہ طے ہے کہ پچاس برس پرانے سرکلر ریلوے کے ٹریک پر آپ ازسر نو لوکل ٹرین نہیں چلا سکتے۔ آج کا شہر کراچی پچاس برس پرانا شہر کراچی سے بہت مختلف ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں روڈ راستے اور سمتیں بدل گئی ہیں۔ اگر آپ سچ مچ کراچی کو لوکل ٹرین دینا چاہتے ہیں تو اس کیلئے آپ کو نیا ماسٹر پلان تیار کرنا پڑے گا۔ ٹرین کو تجارتی اور کاروباری مراکز کے قریب سے گزارنا پڑے گا۔ مگر سب سے پہلے آپ کو دیکھنا پڑے گا کہ کراچی کے لوگوں کو لوکل ٹرین کی ضرورت ہے، یا اچھے اور رواں راستوں اور شاہراہوں کی ضرورت ہے۔