امن یا خانہ جنگی، افغان قیادت کا اصل امتحان شروع

March 15, 2020

ابھی امریکا اور افغان طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت، دوحا میں ہونے والے معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی کہ دوبارہ خون ریزی شروع ہوگئی۔گو کہ ابتدائی طور پر افغان حکومت سمیت ہر مُلک نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا تھا، لیکن نئے تنازعے نے اُس وقت جنم لیا، جب صدر اشرف غنی نے بیان دیا کہ’’ ہم طالبان قیدیوں کی رہائی کے پابند نہیں۔‘‘طالبان تو جیسے انتظار ہی میں بیٹھے تھے کہ اُنہوں نے فوراً افغان فوجیوں پر ہلّہ بول دیا اور ان حملوں میں خاصا جانی نقصان بھی ہوا۔ جواباً امریکا ،افغان حکومت کی مدد کو لپکا اور طالبان کے ٹھکانوں کو فضائی بم باری کا نشانہ بنایا۔ اس موقعے پر امریکا کا کہنا تھا کہ وہ افغان حکومت کے دفاع کا پابند ہے۔

اس پس منظر میں یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا اِس طرح کے ماحول میں امن قائم ہوسکتا ہے اور کیا قطر معاہدے سے ایسی خون ریزی کو روکا جا سکے گا، جو افغانستان کو تباہ کرچُکی ہے؟ پھر یہ بھی کہ کیا فریقین اور باقی دنیا کے پاس معاہدے کا کوئی ایسا نعم البدل ہے، جو عوام کو سُکھ وچَین فراہم کرسکے؟بظاہر تو صُورتِ حال مایوس کن نظر آتی ہے،تاہم امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ اور افغان طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ، ملّا برادر کے درمیان امن معاہدہ برقرار رکھنے کے لیے نصف گھنٹے سے زاید ہونے والی ٹیلی فونک بات چیت سے اُمید بڑھی ہے۔

29 فروری کو دوحا میں ہونے والے معاہدے کے بیش تر نکات وہی ہیں، جن کا گزشتہ سال فروری سے ذکر ہوتا رہا ہے۔ امریکا اور طالبان کی جانب سے ان باتوں کا بار بار اِعادہ بھی کیا گیا۔ جیسے امریکی فوجیوں کی مرحلہ وار واپسی، قیدیوں کی رہائی، افغان سرزمین کو ہر قسم کے تشدّد سے پاک رکھنا اور اسے دوسرے مُمالک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا وغیرہ۔ معاہدے کی ایک اہم بات’’ افغان انٹرا ڈائیلاگ‘‘ بھی ہے، جس کا سادہ زبان میں مطلب موجودہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات اور پاور شیئرنگ کا فارمولا وضع کرنا ہے۔ پچاس کے قریب ممالک کے نمائندوں کے سامنے ہونے والے اس معاہدے کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور اسے امن کی جیت کہا گیا۔

افغان طالبان اسے اپنی جدوجہد کا ثمر قرار دیتے ہیں، جب کہ امریکا نے اسے اپنی کام یاب خارجہ پالیسی کا عنوان دیا۔پاکستان یوں مطمئن اور شاداں ہے کہ اس نے سہولت کاری کے ذریعے قیامِ امن میں اپنا کلیدی حصّہ ڈالا۔ دنیا میں کبھی کوئی ایسا امن معاہدہ نہیں ہوا، جس پر خود کار طریقے سے عمل شروع ہوگیا ہو۔ درحقیقت، کاغذ کے ٹکڑے پر کیے گئے دست خطوں سے امن نہیں آتا، بلکہ اس کے پیچھے فریقین کا عزم، اُن کی خواہش یا مجبوری ہوتی ہے۔ امریکا طویل جنگ کا خاتمہ کرکے اپنی فوجوں کی واپسی کا خواہش مند ہے، تو طالبان مُلک میں اقتدار حاصل کرنا اور مزید لڑائی سے نجات چاہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اٹھارہ سالہ جنگ سے دونوں فریق تھک چُکے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا، تو مذاکرات کی میز ہی نہ سجتی۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ایک بار پہلے بھی افغانستان سے غیر مُلکی فوجوں کی واپسی کا معاہدہ ہوا تھا۔ تیس سال قبل ہونے والے’’ جنیوا امن معاہدے‘‘ کے بعد روسی افواج افغانستان سے نکل گئیں۔ اُس معاہدے کے دوسرے فریق افغان مجاہدین تھے اور معاہدے کو مجاہدین کی تاریخی فتح بھی قرار دیا گیا۔پاکستان اس میں بھی سہولت کار اور فریق تھا۔ اُس وقت پاکستان، امریکا، یورپ اور کئی مسلم مُمالک نے افغان مجاہدین کی مدد کی تھی۔ غیر مُلکی فورسز تو معاہدے کی روشنی میں افغانستان سے چلی گئیں، لیکن اصل چیلنج مجاہدین اور افغان حکومت کے درمیان پاور شیئرنگ کا تھا۔ تاہم، وہ اقتدار کی کش مکش میں کچھ ایسے دست و گریباں ہوئے کہ بھائی کو بھائی کے خون کا احترام نہ رہا اور ہم وطن ہی ایک دوسرے کو مارنے مرنے پر تُل گئے۔ مشکل یہ ہوئی کہ اسلام آباد اس مرحلے پر خود کو تنازعے سے دُور نہ رکھ سکا۔ حالاں کہ اُس کے لیے تو سب سے بڑا چیلنج وہ75 لاکھ افغان مہاجرین تھے، جو جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہوئے اور جن کی میزبانی پاکستان نے قبول کی۔ اگر صُورتِ حال بہتر ہوجاتی، تو یہ مہاجرین اپنے گھروں کو لَوٹ جاتے، جس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوتا۔ آپس کی لڑائی سے افغانستان لہولہان ہوا اور کھنڈر میں بھی تبدیل ہوگیا۔ اس خانہ جنگی میں اتنی ہلاکتیں اور تباہی ہوئی کہ روس کے ساتھ جنگ میں بھی نہیں ہوئی تھی۔پھر ظلم یہ بھی ہوا کہ دنیا کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔ افغان عوام اُس آزادی کی راہ ہی تکتے رہ گئے، جس کے لیے لاکھوں افغانی ایک سُپر پاور سے ٹکرا گئے تھے۔ ان حالات میں خوش حالی تو کہاں آنی تھی، مزید دربدری اور تباہی اُن کا مقدّر ٹھہری۔

آج بھی افغان حکومت اور طالبان کے سامنے بنیادی چیلنج یہی ہے کہ وہ تاریخ دُہرائے جانے کا سامان نہ کریں۔ ماضی میں کیا ہوا؟ کس نے کیا کردار ادا کیا؟ کون کس کا حامی، کس کا مخالف تھا؟ یہ سب باتیں بعد میں بھی طے ہوتی رہیں گی، سب سے اہم کام اپنے وطن اور عوام کا تحفّظ ہے۔ فریقین کے لیے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر فیصلوں کا وقت آ پہنچا ہے۔دیکھنا ہوگا کہ اشرف غنی اور طالبان اس مرحلے پر کس قدر ہوش مندی سے فیصلے کرتے ہیں۔ اِس بات کا بہت ذکر ہوتا ہے اور یہ دُرست بھی ہے کہ افغان بڑی بڑی طاقتوں کو اپنی سرزمین پر شکست دیتے رہے ہیں، لیکن کیا وہ اس شکست کو اپنی فتح میں تبدیل کرنے میں بھی کام یاب رہے؟ کیا وہ اپنے وطن کو ایک خوش حال، خود مختار مُلک بنا پائے؟ یا صرف فتح اور شکست کے کھیل ہی میں مصرف رہے اور اپنے عوام کو خون ریزی کے علاوہ کچھ نہ دے سکے۔ بڑی طاقتوں کو شکست دے کر وہ خود بڑی طاقت بن سکے یا اس کام یابی سے کوئی اور فائدہ اُٹھا گیا؟ اس حوالے سے افغان اجتماعی دانش اور اہلِ سیاست کو بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔

یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ گریٹ گیم ہو رہا ہے۔ افغانستان کی جغرافیائی اہمیت بھی اپنی جگہ، لیکن امن کو اپنے فائدے میں کیسے استعمال کیا جائے؟ یہی افغان قیادت کی آزمائش ہے۔وگرنہ جنگیں جیتنا اور کام یابیاں حاصل کرنا تو کوئی نئی بات نہیں، دنیا میں ہمیشہ سے ایسا ہوتا رہا ہے۔ اس ضمن میں طالبان کو ویت نام کی مثال سامنے رکھنی چاہیے۔ جو آج دنیا کی اُبھرتی معیشتوں میں شامل ہوچُکا ہے۔قومیں ماضی میں زندہ نہیں رہتیں، وہ اس سے سبق سیکھتی ہیں۔ ماضی میں تو سلطنتِ روما بھی ناقابلِ شکست سُپر پاور تھی، مگر کیا آج اٹلی ایسا ہی ہے؟اسپین مسلمانوں کی شان دار تاریخ کا امین تھا، مگر آج کا اسپین سب کے سامنے ہے۔

معاہدے کے فوراً بعد قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر جس قسم کا ردّعمل سامنے آیا، اُس نے پھر یہ شُبہ پیدا کر دیا ہے کہ کیا افغان لیڈرشپ (حکومت اور طالبان) میں یہ صلاحیت ہے بھی کہ وہ امن قائم کر سکیں؟ جنگ ایک ہنگامی اور جذباتی عمل ہے، اُسے ختم ہونا ہی ہوتا ہے، لیکن کسی قوم کی زندگی میں امن اور ترقّی کی جدوجہد ایک بے حد صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔اس میں جذبات اور مرنے مارنے کی بجائے کام کرنا پڑتا ہے۔عوام کی خدمت اور خوش حالی ہی بنیادی ہدف طے پاتا ہے۔ اس کے لیے لیڈرشپ کا تسلسل بھی چاہیے۔ اسی لیے جمہوری نظام کو سب سے بہتر سمجھا گیا۔انقلاب اور آزادی کی جدوجہد کے اختتام پر اصل آزمائش شروع ہوتی ہے۔

اب مقابل اپنے ہی لوگ ہوتے ہیں کہ اُنھیں کیسے مطمئن کیا جائے اور اُن کی صلاحیتوں کو کیسے بروئےکار لایا جائے؟ یہ کام ایک ایسی لیڈرشپ ہی سرانجام دے سکتی ہے، جو ذاتیات اور گروہی تعصّب سے بالاتر ہوکر فیصلے کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔تاہم، افغان قیادت میں اس خُوبی کی کمی رہی ہے۔یہ خود تو کچھ کر نہیں پاتے، مواقع گنواتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی اُنہیں میز پر بِٹھاتا ہے، مذاکرات کرواتا ہے، معاہدے پر آمادہ کرتا ہے، اُن کی ترقّی کے لیے معاونت کرتا ہے،تو یہ پھر بھی ایک نہیں ہوپاتے۔ دیکھتے ہیں، اس بار اُنھیں امن معاہدے کی شکل میں امن وترقّی کا جو موقع ملا ہے، اُس سے کیا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔یقیناً اس معاہدے کو مسترد کرنا اور خون ریزی کی راہ پر واپس جانا آسان راستہ ہے، لیکن اسے امن و ترقّی میں تبدیل کرنا کٹھن سفر اور امتحان ہے۔دیکھا جائے، تو معاہدے کے عمل میں غنی حکومت کو باہر رکھا گیا، جس سے شکایات پیدا ہونے کا موقع ملا۔

امریکا نے براہِ راست طالبان سے بات کر کے اُنہیں تو قانونی طور پر جائز فریق بنا دیا، لیکن جس افغان حکومت کو امریکی لائے تھے، اُسے خود ناجائز کر دیا۔ اشرف غنی غالباً اسی پر اپنی ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فروری کا معاہدہ ایک طرح سے صرف امریکی فوجیوں کی واپسی کی راہ ہم وار کرتا ہے۔ افغانستان میں امن کیسے قائم ہوگا؟ یہ انٹرا افغان ڈائیلاگ ہی میں طے ہوگا۔ اس لیے افغانستان کی تعمیر وترقّی اور سیاسی استحکام اسی بین الافغان مذاکرات سے وابستہ ہیں۔ غالباً یہ بھی سوچا گیا کہ اگر یہ خود امریکا نے طے کردیا، تو اسے ڈکٹیشن کہا جائے گا، لیکن اگر افغان فریقین کو کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے، تو وہ اہلیت تو ثابت کریں۔ طالبان اور افغان حکومت کے قریب آنے کے لیے کتنا ہوم ورک کیا گیا؟ اس حوالے سے دو بنیادی مشکلات سامنے آتی ہیں۔

ایک تو یہ کہ طالبان اور حکومت کے نظریات یک سَر مختلف ہیں۔ دونوں اپنے اپنے طرز کا نظامِ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ طالبان کے سامنے اب وہ افغانستان نہیں، جو پچیس سال پہلے تھا۔ مُلک میں باقاعدہ حکومت ہے، ایک سیاسی اور انتظامی نظام ہے۔ فوج، انتظامیہ اور پولیس ہے۔عوام اس کے عادی ہوچُکے ہیں ، تو کیا وہ اب طالبان کا نظام قبول کرلیں گے؟ یہ دیکھنا ہوگا۔طالبان کی جدوجہد اپنی جگہ، لیکن اب مُلک چلانے کا معاملہ ہے۔موقف میں لچک نہ دِکھا کر وہ عوام اور اپنے ہم وطنوں کو مایوس کردیں گے۔ اُنہیں ملّا عُمر کے زمانے کی طرح اب قبضہ نہیں کرنا، بلکہ عوام کو یقین دِلانا ہے کہ ان کے پاس حکم رانی کا بہتر سسٹم ہے۔

امریکا، افغانستان سے جارہا ہے، لیکن یہ کہنا کہ وہ شکست کھا کر جارہا ہے، اسے کچھ چیزوں کی مدد سے سمجھنا ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا افغان وار نے اس کی معیشت کو ویسا ہی نقصان پہنچایا، جیسے برطانیہ کو پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں پہنچا تھا۔ کیا اِس اٹھارہ سال کی جنگ نے اُس کی وحدت پر اسی طرح ضرب لگائی، جیسے سویت یونین پر لگی تھی۔کیا عراق اور افغانستان کی پسپائی نے امریکا کو سُپر پاور کے مقام سے معزول کر دیا ۔ ان سوالات کے جوابات ہر شخص اپنے ذوق اور علم کی بنیاد پر دیتا رہے گا، لیکن اصل بات یہی ہے کہ فتح کی خوشیاں اور شکست کے ماتم قوموں کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرتے۔ اس معاملے میں لیڈرشپ کی دُور بینی کام آتی ہے کہ وہ حالات کے مطابق کیسے خود کو ڈھالتے اور اپنی قوم کو کیسے فائدہ پہنچاتے ہیں۔ چین اور روس، افغانستان کے پڑوسی اور بڑی طاقتیں ہیں۔ روس پہلی جنگ کا شکست خوردہ ہے، لیکن اُس نے طالبان سے تعلقات درست کرنے کی کوشش کی، کیوں کہ وہ جس معاشی کم زوری سے گزر رہا ہے، اس میں اپنی سرحد پر کسی قسم کی بے چینی برداشت نہیں کرسکتا۔

صدر پیوٹن نے اپنی تمام تر توجّہ اقتصادی بحالی پر رکھی۔ پھر امریکا سے زیادہ اُسے چین کی فکر ہے، جو ایک اقتصادی دیو بن چُکا ہے۔چین بڑی تیزی سے دنیا کے مرکزی اسٹیج پر آچُکا تھا، لیکن کورونا وائرس نے اُسے غیر معمولی دھچکا پہنچایا، اسے بحالی کے لیے کم ازکم ایک برس تو درکار ہوگا۔نیز، سنکیانگ کا معاملہ بھی اُس کے لیے نہایت اہم ہے، جو اس کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ کیا وہ اپنی سرحد سے متصل کوئی طالبان جیسی حکومت قبول کرلے گا، جس کے اثرات اُس کے علاقے میں بھی سرایت کرجائیں؟ ماضی میں بھارت کے افغانستان سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔

ایرانی چابہار پورٹ سے کابل تک سڑک کی تعمیر، ایران، افغان سرحد پر نیلم ڈیم اور افغانستان کی بحالی میں بھارت کا اہم کردار رہا۔تاہم اب نئی صُورتِ حال میں اُس کا کیا کردار ہوگا؟ یہ بھی خطّے کے مستقبل کے تعیّن میں اہم سوال ہے۔خود ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے افغانستان میں اہم کردار کا ذکر کیا تھا۔پھر یہ بھی کہ افغانستان میں بھارتی کردار اسلام آباد کے لیے کس حد تک قابلِ قبول ہوگا؟ کیا افغان مسئلے پر بھی یہ دونوں مزید تلخی کی طرف جائیں گے؟علاوہ ازیں،افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کا خطّے میں کیا کردار ہوگا؟ یہ سوال ہمارے لیے اہمیت اختیار کر گیا ہے۔پھر یہ کہ کابل میں آنے والی حکومتوں کا رویّہ کیسا ہوگا؟ یہ بھی اہم ہے۔ جب روس کو شکست ہوئی، تو حکومت ہی نہیں، پاکستان کی بہت سی سیاسی جماعتوں نے بھی افغان معاملات سلجھانے کی کوشش کی۔ملّا عُمر کی حکومت کو صرف دو ممالک، پاکستان اور سعودی عرب نے تسلیم کیا۔

اے پی ایس سانحے کے بعد فوجی کارروائی کے نتیجے میں کالعدم ٹی ٹی پی کی قیادت اور جنگ جُو افغانستان فرار ہوگئے اور وہیں سے کارروائیاں کرتے رہے۔ امریکی ڈرون حملوں میں ان کی سرکردہ لیڈرشپ کی ہلاکت بھی افغان سرزمین ہی پر ہوئی۔ اب افغان حکومت سے اس طرح کے معاملات کیسے طے ہوں گے؟ یہ بھی اہم سوال ہے۔ٹی ٹی پی بہت سی کالعدم تنظیموں کو سپورٹ کرتی رہی ہے، جو ایف اے ٹی ایف میں ہمارے مقدمے کے لیے شدید مشکلات کا سبب بنیں۔اس معاملے کو حل کرنا بھی ضروری ہے۔ نیز،افغان مہاجرین بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جسے ترجیحی بنیادوں پر سلجھانا ہوگا۔ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ایک سیاسی، جس کی طرف وزیرِ اعظم، عمران خان نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب تک ان کی واپسی نہیں ہوتی، تب تک دہشت گردی کے خاتمے کی یقین دہانی ممکن نہیں۔‘‘دوسرا اقتصادی پہلو ہے۔ غالباً یہ سب سے بڑی قیمت ہے، جو پاکستانی قوم نے اپنے افغان بھائیوں کی آزادی کے لیے ادا کی۔ ان کی تیسری نسل یہاں جوان ہوچُکی اور یہاں کاروبار کر رہی ہے۔

ہم اُنھیں ایران کی طرح کیمپس تک محدود رکھنے میں کام یاب نہ ہوسکے، وہ ہماری سرزمین پر آزاد شہریوں کی طرح رہے۔معاشرے میں منفی اثرات بکھیرتے رہے، جن میں انتہا پسندی سب سے اذیّت ناک مسئلہ ہے۔ایسے مسائل کی پیچیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ تُرکی میں شامی مہاجرین کا دبائو بڑھا، تو اُس نے یورپ کے گیٹ کھول دیے۔ہم افغانستان سے اپنے تعلقات کو مذہبی اور تاریخی وَرثہ قرار دیتے ہیں۔ ہمارے اکثر ہیرو افغانستان اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں،جن کے تدبّر اور بہادری کی مثالیں ہماری شان دار تاریخ ہے۔تو کیا اب کوئی نئی تاریخ لکھی جائے گی ؟ یہ تو نظریاتی معاملات ہیں، لیکن وسط ایشیا کی مسلم دنیا سے رابطوں کو کیسے مضبوط کیا جائے گا؟ یہ بھی پاکستان کے لیے بہت اہم معاملہ ہوگا۔ سی پیک شاہ راہیں اپنی جگہ، لیکن قدرتی راستہ تو افغانستان ہی سے جاتا ہے۔

اب وسط ایشیا، سویت زمانے کا نہیں ہے، جب افغان حکومت اس کی ہم نوا رہی اور بھارت، سویت یونین کا قریب ترین اتحادی تھا۔ اب وہاں قدرتی وسائل اور امکانات سے مالا مال نو، دس مسلم ریاستیں ہیں، جو روس سے بالکل آزاد ہیں۔ ہم اُن تک کیسے پہنچ سکیں گے؟ یقیناً خارجہ پالیسی بنانے والوں نے اس حوالے سے ہوم ورک کر لیا ہوگا۔ہمیں افغان دھڑوں کی آپس کی سیاست میں اُلجھنے کی بجائے اپنے وسیع تر مفادات کو سامنے رکھنا پڑے گا، وگرنہ پھر کوئی اور اس خلا کو پُر کر دے گا۔ ایسی صُورتِ حال ہمارے ساتھ بار بار پیش آتی رہی ہے۔ ہم خوابوں اور نظریات کی دنیا میں زندہ رہتے ہیں، جب کہ مسلم مُمالک ہوں یا کوئی اور ریاست، ٹھوس اقتصادی معاملات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ بلاشبہ ہمارے معاشی حالات وسط ایشیامیں موجود مواقع کھونے کے متحمّل نہیں ہوسکتے۔