صارف کے حقوق کا عالمی دن...!

March 15, 2020

صارف تحریک ہر سال 15مارچ کو ’صارف کے حقوق کا عالمی دن‘ مناتی ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد عالمی سطح پر صارف کے حقوق اور اس کی ضرورتوں سے متعلق آگاہی پید اکرنا ہے۔ صارف کے حقوق کے حوالے سے پہلی بار آواز سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے 1962ء میں کانگریس میں اُٹھائی تھی، جہاں انہوں نے خصوصی پیغام کے ذریعے صارف کے حقوق کے حوالے سے مسائل کو اجاگر کیا۔

صارف کے حقوق کی بات کرنے والے وہ پہلے عالمی رہنما تھے۔ تاہم صارف کے حقوق کا عالمی دن پہلی بار15مارچ1983ء کو منایا گیا تھا، جسے اب ہر سال منایا جاتا ہے تاکہ صارف کے اہم مسائل پر عالمی رائے عامہ کو ہموار کیا جاسکے اور اسی مناسبت سے کمپین بھی ڈیزائن کی جاسکے۔ جان ایف کینیڈی نے صارف کو چار بنیادی حقوق دیے تھے، جن میں اضافہ کرکے بعد میں آٹھ کر دیا گیا۔ صارف کے حقوق میں اضافہ، صارف حقوق کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم ’کنزیومرز انٹرنیشنل‘ کی تجویز تھی۔ صارف کے حقوق آٹھ نکات پر مشتمل ہیں، جن میں اطمینان، حفاظت، انتخاب، معلومات، صحت مند ماحول، شکایت کی صورت میں شنوائی اور ازالے کا حق شامل ہے۔

اس دن، دنیا بھر میں صارفین کے حقوق کی آگاہی کے لیے مہم چلائی جاتی ہے، اس دوران لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے واک اور سیمینارزکا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ہر سال یہ دن منانے کا اہتمام کنزیومرز انٹرنیشنل (CI)کے تحت کیا جاتا ہے، جو دنیا بھر کے صارف گروہوں کی عالمی فیڈریشن ہے۔ اس فیڈریشن کی بنیاد 1960ء میں رکھی گئی تھی، یہ صارفین کی واحد آزاد اور خودمختار عالمی آواز ہے۔ اس وقت فیڈریشن کے رکن اداروں اور ملکوں کی تعداد بالترتیب 220اور115ہے۔

پاکستان کے آئین میں صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں صارف کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے صارف عدالتیں یا کنزیومر کورٹس بھی قائم ہیں۔

2020ء کا موضوع

ہر سال کنزیومرز انٹرنیشنل کی کونسل صارف کے حقوق کا عالمی دن کے لیے ایک موضوع (تھیم) منتخب کرتی ہے جیسا کہ گزشتہ سال ’’ہمارا پیسہ، ہمارے حقوق‘‘کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اسی طرح رواں سال کا موضوع ’’پائیدار صارف‘‘ (The sustainable consumer) منتخب کیا گیا ہے۔ اس سال عالمی سطح پر پائیدار صارفیت یا پائیدار کھپت کی ضرورت پر زور دیا جائے گا۔

موضوع کا پسِ منظر

اگر روئے زمین پر رہنے والا ہر شخص، مغربی یورپ کے اوسط معیار کے مطابق زندگی گزارنے لگے تو ہمیں اپنی ضروریات (کھپت) کو پورا کرنے کے لیے زمین جیسے تین سیاروں کی ضرورت پڑے گی۔ یہ بات ایک الگ تلخ حقیقت ہے کہ ہماری اسی زمین پر ایک ارب افراد انتہائی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور انھیں ایک مناسب زندگی گزارنے کے لیے کم از کم بنیادی ضرورتوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

اپنے سیارے (زمین) کے تحفظ اور موجودہ اور آنے والی نسلوں کو منصفانہ سماجی ماحول فراہم کرنے کے لیے ہمیں اس بات پر غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اشیا اور خدمات کو کس طرح پیدا اور انھیں استعمال کرتے ہیں۔ پائیدار کھپت کا مقصد وسائل کی استعدادِکار اور منصفانہ تجارت میں اضافہ کرنا جبکہ غربت کے خاتمے میں مدد کرنا اور ہر فرد کو کھانے، پانی، توانائی، ادویات اور دیگر سہولیات تک رسائی کے ساتھ اچھے معیار کی زندگی سے لطف اندوز کرنے کے قابل بنانا ہے۔ دنیا بھر میں پائیدار اشیا کی طلب میں بھی اضافہ ہورہاہے، اضافے کا یہ رجحان خصوصاً نوجوان صارفین میں زیادہ دیکھا جارہا ہے۔

ایک بین الاقوامی ریسرچ ادارے کی جانب سے 2018ء میں شائع کی جانے والی ایک مطالعاتی رپورٹمیں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ 81فیصد صارفین سمجھتے ہیں کہ کمپنیوں کو ماحولیات کی بہتری میں مدد فراہم کرنی چاہیے۔ تاہم ہارورڈ بزنس ریویو 2019ء میں شائع ہونے والی ایک مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی کھپت میں پائیدار اشیا کا حصہ20سے 30فیصد کے درمیان ہی رہتا ہے۔ عمومی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ پائیدار اشیا اور خدمات کا انتخاب صارفین کے لیے آسان نہیں ہوتا کیونکہ اس طرحکی خریداری کے لیے انھیںنہ صرف تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ پیسے بھی زیادہ خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ مزید برآں، رویے بدلنے میںبھی وقت لگتا ہے۔

تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ 2013ء سے2018ء کے دوران، پائیدار اشیا او رخدمات کی کھپت میں 50فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے، جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ صارفین میں ’ارادے‘ اور ’عمل‘ کے درمیان فرق بتدریج کم ہورہا ہے، یعنی صارفین نہ صرف پائیدار کھپت کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کررہے ہیں۔

صارف حقوق کا حال اور مستقبل

جان ایف کینیڈی کے امریکی کانگریس کو دیے گئے یادگار پیغام کے 58برس بعد بھی کئی ممالک میں صارف کو اس کے کئی بنیادی حقوق حاصل نہیں۔ آج کا دن دنیا بھر کی تمام حکومتوں اور شراکت داروں کو صارف حقوق کی یاد دہانی کرواتا ہے جو کہ اس کا بنیادی حق ہیں۔ اس دن ہمیں اپنی اجتماعی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا بھر میںصارف کے حقوق کی نمائندگی اور تحفظ کو یقینی بنانےکے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔