پاکستان کا دشمن کون؟

March 20, 2013

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے ؟اوہ…آئی ایم سوری اگر آپ نے اس احمقانہ سوال کا برا منایا ہے ۔یقینا بچے بچے کو پاکستان کے دشمنوں کے بارے میں علم ہے کیونکہ انہیں پہلی جماعت سے ہی ملک دشمنو ں کے نام رٹائے جاتے ہیں لیکن میں چونکہ بچپن میں ذرا بیمارشمار رہا ہوں اس لئے بے سروپا سوالات کرنا میرا ٹریڈ مارک بن چکاہے ۔جہاں تک مجھے یاد پڑتاہے ، ہمارا دشمن نمبر ایک بھارت ہے ،اس کے بعد امریکہ،اسرائیل اور یہودی لابی کی باری آتی ہے ، کے جی بی اور ایم آئی نائن کے ایجنٹ بھی ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں ،مغربی طاقتیں بھی ہمارے خلاف متحد ہیں اور جو کافر ممالک بچ جاتے ہیں انہیں بھی ہم سے خدا واسطے کا بیر ہے ۔سو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں ہمارے دشمن زیادہ اور دوست کم ہیں ۔افغانستان کی سمجھ نہیں آ سکی کہ دوست ہے یا دشمن لہذا اسے کسی درمیانی جنس کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔یادش بخیر۔بلیک واٹر کا نام یاد ہے آپ کو؟وہ بھی تو ہمارا دشمن ہے ! جی ہاں وہی بلیک واٹر جس کے بارے دو برس قبل ہمارے میڈیا نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ اس تنظیم کے اہلکاروں نے اسلام آباد میں چار سو گھر کرائے پر لے رکھے ہیں جن میں یہ جاسوس دن رات سر جوڑ کریہ ترکیبیں لڑاتے ہیں کہ کیسے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کیا جائے ۔اس کی علاوہ یہ بلیک واٹر پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور فرقہ وارایت کا بھی ذمہ دار ہے ورنہ ہمارے درمیان ایک بھی ہوم میڈ خود کش بمبار نہیں اور فرقہ واریت تو ہمیں چھو کر بھی نہیں گذری !
ہمارے دشمنوں کی اس فہرست میں وہ لوگ کہیں آٹھویں نویں نمبر پر آتے ہیں جو ہماری پولیس اور فوجی جوانوں کے گلے کاٹتے ہیں ،مارکیٹوں ،درباروں اور سرکاری اداروں پر حملے کرتے ہیں ،ملالہ یوسفزئی کو گولی مارتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ اگر موقع ملا تو وہ اس بچی کودوبارہ ماریں گے ،اپنے تمام اقدامات کی فخریہ اندازمیں ذمہ داری قبول کرتے ہیں ،ویڈیوز بنا کر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرتے ہیں ،اپنے ترجمان کو گلے سے لگا کر دنیا کو بتاتے ہیں کہ دیکھو یہ ہمارا ترجمان ہے جوتم لوگوں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتا ہے کوئی مغالطے میں نہ رہے …لیکن ہم بھی بہت چالاک ہیں ،ہمیں پتہ ہے کہ یہ سب اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے ۔شروع میں تو ہم سرے سے ان کا وجو د ماننے سے ہی انکاری تھے اور اب بھی ہم انہیں اپنا دشمن نمبر ایک تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔دراصل ہمیں علم ہی نہیں کہ ہمارا دشمن کون ہے !” اگر آپ اپنے دشمن کو جانتے ہیں اور خودکو بھی جانتے ہیں تو پھر ایک ہزار جنگوں سے بھی آپ کو کوئی خطرہ نہیں ،اگر آپ خود کو جانتے ہیں اور اپنے دشمن کو نہیں جانتے تو اس صورت میں آپ ایک جنگ جیتیں گے اور ایک ہار جائیں گے اور اگر آپ خود کو نہیں جانتے اور اپنے دشمن سے بھی لا علم ہیں تو پھر آپ کو ہر معرکے میں خطرناک صورتحال کا سامنا ہوگا۔“یہ قول عظیم چینی جرنیل اور فلسفی سن زو (Sun Tzu) کا ہے جو تقریباً اڑھائی ہزار سال قبل چین میں پیدا ہوا۔سن زو کی وجہ شہرت اس کی شہرہ آفاق کتاب The Art of Warہے جو اس نے اپنے جنگی تجربات بنیاد پر لکھی اور جسے آج بھی ہر جرنیل اپنے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کے سوتا ہے(بشرطیکہ اس نے مارشل لا نہ لگانا ہو) ۔اس کتاب میں جنگی حکمت عملی کے ایسے زریں اصول بیان کئے گئے ہیں جو آج کی دنیا میں بھی اتنے ہی قابل عمل ہیں جتنے اڑھائی ہزار سال پہلے تھے۔بے شمار ممالک میں یہ کتاب فوجی ملازمت کے متمنی امید واروں کے امتحان کے لئے وضع کئے گئے سلیبس کا لازمی حصہ ہے ۔چینی رہنما ماؤ زے تنگ نے اپنی گوریلا جنگ کے دوران اسی کتاب سے استفادہ کیا۔امریکی فوج کے محکمے نے اپنے تمام یونٹوں کو ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ اس کتاب کے نمونے فوجی یونٹوں میں رکھے جائیں،سی آئی اے کے ایجنٹس کے لئے بھی اس کتاب کو پڑھنا تقریباً لازمی ہے ۔اس کتاب کی ایک دلچسپ خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ محض جنگی حکمت عملی کے گر نہیں بتاتی بلکہ یہ کاروباری دنیا کی سیاست کے رموز کی بھی بائبل سمجھی جاتی ہے ۔بہت سی جاپانی کمپنیوں نے اس کتاب کا مطالعہ اپنے چیف ایگزیکٹو صاحبان کے لئے لازمی قرار دیا ہے ۔
Sun Tzuنے جنگی حکمت عملی کے جو رہنما قوانین بتائے ہیں ان میں کلیدی اصول یہ ہے کہ ہر جنگ دشمن کو دھوکے میں رکھ کر لڑی جاتی ہے ،سو جب آپ حملہ کرنے کے قابل ہوں تو یوں لگنا چاہئے جیسے اس قابل نہیں ،جب آپ طاقت کا استعمال کرنا چاہیں تو یوں لگے جیسے بیکار بیٹھے ہیں ،جب آپ دشمن کے قریب ہوں تو دشمن کو لگنا چاہئے کہ بہت دور ہیں اور جب آپ دور ہوں تو دشمن کو لگنا چاہئے کہ آپ اس کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں (طالبان اسی اصول پر عمل کرتے ہیں)…ایک سو جنگیں لڑنا اور انہیں جیتنا ،مہارت کی معراج نہیں بلکہ اپنے دشمن کوبغیر جنگ لڑے زیر کرنا فن کی معراج ہے …جنگ میں جیت ضروری ہوتی ہے ،طویل آپریشن نہیں …جس جرنیل کو یہ علم ہوکہ وہ کب لڑ سکتا ہے اور کب نہیں،وہی فاتح ہوگا…دنیا میں کسی ایسی قوم کی مثال نہیں جسے ایک طویل جنگ سے کوئی فائدہ پہنچا ہو…اپنی کمتری کا ڈرامہ کریں اور دشمن کے غرور کی حوصلہ افزائی!
اگر ہم ان اصولوں پر نظر ڈالیں تو یہ جاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ ہم ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے ؟ہم اس جنگ کواپنی جنگ ماننے کو تیار نہیں،ہمارے کسی عمل سے نہیں لگتا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے دشمن وہ ہیں جو اس ملک کے خلاف سازشیں کرتے ہیں ،ہمارے ایٹمی ہتھیار وں پر قبضہ کرکے امت مسلمہ کی واحد ایٹمی طاقت کو مفلوج بنانا چاہتے ہیں اور عوام کو فرقہ وارانہ فسادات میں جھونک کر ملک میں خانہ جنگی کروانہ چاہتے ہیں ورنہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کا گلا نہیں کاٹ سکتا ،کوئی مسلمان عبادت گاہوں پر حملے نہیں کرسکتا ،کوئی مسلمان اپنی فوج اور پولیس کو نشانہ نہیں بنا سکتا ،یہ سب صیہونی سازش ہے جس کے تانے بانے امریکہ اور اسرائیل کے وہ چند کھربوں پتی خاندان بُنتے ہیں جو گذشتہ دو سو سالوں سے دنیا پر خاموشی سے حکومت کر رہے ہیں اور ہم کٹھ پتلی کی طرح ان کے اشاروں پر کتھک ڈانس کررہے ہیں لیکن ہمیں پتہ ہی نہیں کیونکہ ہم نے بھنگ پی ہوئی ہے۔میں یہ سب تھیوریاں ماننے کو تیار ہوں مگر مصیبت یہ ہے کہ اگر ہمارے دشمن یہ سب کچھ کر رہے ہیں تو انہیں یہی کرنا چاہئے کیونکہ وہ ہمارے دشمن ہیں اور اگر ہم اس قدر کایاں ہیں کہ ان تمام سازشوں کو فوراًبھانپ لیتے ہیں تو پھر رونا کس بات ہے ،دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا دیں ۔اوہ ،سمجھا، اس کے لئے حکومت میں ہونا ضروری ہے اور حکومت چونکہ امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں بنتی لہٰذا ہم اس گھن چکر سے باہر نہیں نکل سکتے ،چہ خوب!
یہ بے سروپا تاویلیں تراشتے ہوئے ہمیں کئی برس ہو گئے ہیں مگر ہم اب تک اپنے دشمنوں کا ادراک نہیں کر سکے۔جو قوم اس قدر غلط فہمی میں رہنے کی عادی ہو جائے اسے حقیقت کی دنیا میں واپس آنے کے لئے بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے اورہم وہ قیمت اپنے پیاروں کی لاشوں کی صورت میں چکا رہے ہیں مگر اس کے باوجود اپنے دشمن کو پہنچانے کے لئے تیار نہیں۔اینڈ مائی ڈیئر کنٹری مین،کوئی بھی جنگ حقیقی دشمن کو جانے بغیر نہیں جیتی جاسکتی!