ایران سے کورونا پاکستان کون لایا؟

March 23, 2020

کراچی (نمائندہ جنگ ) پاکستان کی متعدد اہم شخصیات جن میں چند سیاست دان اور ٹی وی شوز کے میزبان بھی شامل ہیں نے ملک میں کورونا وائرس کو لانے کا الزام وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی زلفی بخاری پر لگایا ہے.تاہم زلفی بخاری معاملےمیں ملوث نہیں ۔

طیبہ خانم نامی خاتون نے ایک شخص کو قرنطینہ میں نہ روکنے کا کہا لیکن معاون خصوصی نے منع کردیا ، ذرائع نےدونوں کی دونوں کی گفتگو کے اسکرین شاٹ فراہم کئے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملکی سیاسی قیادت عوام سے متحد ہو کر کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کرنے کی اپیل کررہی ہے تو دوسری جانب ملک میں وائرس کون لے کر آیا جیسے الزامات فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں، اس سے قبل کہ یہ معاملہ قومی یکجہتی کے لیے خطرہ بن جائے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے پر قابو پالیا جائے۔

اس معاملے پر حالیہ پیشرفت سامنے آئی ہے جس میں ایک عالمہ کا سیاق و سباق سے ہٹ کر حوالہ دیا جارہا ہے کہ وہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری ملک میں کورونا وائرس پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔

الزام یہ ہے کہ زلفی بخاری نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے ایران سے آنے والے چند مخصوص افراد کو تفتان بارڈر پر 14؍ دن لازمی قرنطینہ میں گزارنے سے بچالیا۔

گزشتہ روز ایک معروف ٹی وی اینکر کی جانب سے اس حوالے سے سوشل میڈیا پرایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی تھی جس میں دکھایا گیا ہے کہ طیبہ خانم نامی مذہبی اسکالر ایک ٹیلی فون کال سے متعلق گفتگو کررہی ہیں جس میں مبینہ طور پر انہوں نے زلفی بخاری سے بات کی تھی۔

ویڈیو کلپ میں طیبہ خانم کہہ رہی ہیں کہ ’’میں زلفی بخاری سے بات کررہی تھی اوراس نے مجھے سب سے پہلی بات یہ کہی تھی کہ آپ نے بالکل صحیح جگہ فون کیا ہے میں ہی اس تمام صورتحال کو دیکھ رہا ہوں، اس (زلفی بخاری)نے کہا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ بلوچستان سے بات کرے گا لیکن اس نے مجھے دوبارہ کال نہیں کی۔

ذرائع وزیراعظم ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر ابتدائی تحقیقات کی گئی ہیں اور زلفی بخاری کا فون ریکارڈ بھی چیک کیا گیا ہے۔

ذرائع نے زلفی بخاری کے واٹس ایپ گفتگو کے اسکرین شاٹس اور ابتدائی رپورٹس نمائندہ جنگ سے شیئر کیے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زلفی بخاری اس معاملے میں ملوث نہیں ہیں۔

ایک اسکرین شاٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب طیبہ خانم نے زلفی بخاری سے ایک شخص کو قرنطینہ میں رکے بغیر آنے کی اجازت دینے کی بات کی تو انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ طیبہ خانم کا کہنا تھا کہ ’میں نے تم پر پہلے بھروسہ کیا تھا تاہم مجھے مایوسی ہوئی تھی‘۔

اپنے ردعمل میں زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ ہم انہیں قرنطینہ سے جلدی باہر آنے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ یہ پابندی سب کیلئے ہے، کسی کیلئے ضابطے کی خلاف ورزی کرنے سے پاکستان کے 22؍ کروڑ عوام خطرے میں ہوسکتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ وہ سب قرنطینہ میں اپنا وقت مکمل کریں۔

خیال رہے کہ سینئر وزراء اور مشیر پہلے ہی اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستانی شہریوں کو ایران سے واپس بھیجا گیا ہے کیونکہ ایران خود سخت معاشی پابندیوں اور پھر کورونا وائرس کے باعث مشکلات کا شکار ہے اور وہ چین کی طرح یہ اہلیت نہیں رکھتا کہ محدود وسائل میں اپنے شہریوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کا بھی خیال رکھ سکے۔